بھارتی وزیر خارجہ اپنے گریبان میں جھانکیں 

May 08, 2023

محمد عمران الحق

تحریر۔ محمد عمران الحق۔ لاہور 
 شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم اجلاس بھارت کے شہر گوا میں منعقد ہوا،اجلا س کی صورتحال سے قبل تنظیم کے حوالے سے کچھ اہم معلومات،شنگھائی تعاون تنظیم یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون تنظیم ہے جسے شنگھائی چین میں سنہ 2001ئ￿  میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بانی رکن ممالک میں چین،قازقستان،کرغیزستان،روس، تاجکستان، ازبکستان ہیں جبکہ بھارت اور پاکستان کو 10جولائی 2015میں اس تنظیم میں شامل کیا گیا تھا۔ اس سے قبل پاکستان بطور مبصرباقاعدگی کے ساتھ تنظیم کے اجلاسوں میں شرکت کرتا رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد ایس سی او کے آٹھ مستقل اراکین کی آبادی‘ دنیا کی کل آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہے اور رقبے کے اعتبار سے یہ ممالک ایشیا کے 77فیصد حصے کے مالک ہیں۔
موجودہ پوزیشن میں بھی ایس سی او ایک ایسی علاقائی تعاون کی تنظیم ہے جو مزید کئی پہلوؤں سے اپنی ہم عصر تنظیموں سے منفرد ہے۔ مثلاً اس میں چار ایٹمی طاقتیں شامل ہیں یعنی روس‘ چین‘ پاکستان اور بھارت۔ اس کے علاوہ تین اہم تہذیبوں چینی‘ ہندی اور اسلامی کے باہمی ملاپ کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کررہی ہے۔تنظیم میں ایران اور بیلا روس کو بھی رکن کے طور پر شامل کرنے کے فیصلے کو منظوری دی گئی۔ اس کا سربراہی اجلاس 3-4 جولائی کو دلی میں ہو گا۔لیکن گوا کانفرنس نے انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایسے تلخ تاثرات چھوڑے ہیں جس کی شدت آنے والے دنوں میں دیر تک محسوس کی جائے گی، اس کی بنیادی وجہ بھارتی وزیر خارجہ کا معتصبانہ رویہ قرار دیں تو غلط نہ ہو گا۔ اگر چہ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق دونوں ممالک میں پارلیمانی انتخابات قریب ہیں۔ موجودہ ماحول میں دونوں ملکوں کے کشیدہ رشتوں میں کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مگر اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے مثبت اقدام کو بھی سبوتاڑ کیا ہے،5اگست 2019کے اقدام کے تناضر میں کشمیری قیادت کی جانب سے پاکستانی وزیر خارجہ کے اس دورے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان نے تنظیم کے اجلاس میں شرکت کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمیں کشمیر اور دونوں اطراف دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے لئے آگے بڑھنا ہو گا اور پاکستان ہر سطح پر مذاکرات کرنے کے لئے تیار کھڑا ہے، مگر انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے یہ کہہ کر کہ ایسے پڑوسی سے بات کرنا انتہائی مشکل ہے جو سرحد پار سے ہمارے ملک میں دہشت گردی کے منصوبے بناتا ہے۔،کشمیریوں کے خدشات کو درست ثابت کر دیا ہے کہ بھارت لاتوں کا بھوت ہے وہ باتوں سے نہیں مانے گا۔ ایک طرف سمجھوتہ ایکسپرس واقعے سے لیکر، کشمیر میں مظالم کی داستانیں رقم کرنے تک اور انڈیا کے اندر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے سے لیکر پاکستان کے اندر کلبھوشن نیت ورک کے بے نقاب ہونے تک سب کے پیچھے بھارت کے پاوں کے نشان بڑے واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ دوسری جانب مودی کو عالمی میڈیا گجرات کا قصاب قرار دے چکی ہے۔ نائن الیون کے بعد سے پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 80ہزار افراد کی شہادت اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کیا ہے۔دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں عالمی امن کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اتنی بڑی قربانی دی ہو۔ آج پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگانے والے ذرا اپنے گریبانوں میں جھانک لیں تو تو سب کے دامن کتنے داغدار ہیں معلوم ہو جائیں گے۔امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے پچھلی دو دہایؤں میں دنیا کے امن کو جس انداز میں تہس نہیس کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔جہاں کہیں بھی نا انصافی ہو گی وہاں مزحمت بھی پیدا ہوگی۔ 
 شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے فوری بعد چائنا کے وزیر خارجہ کا پاکستان آنا اور پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کو سیاسی استحکام لانے کا مشورہ دینا بڑا ہم ہے، اس قسم کا بیان 1971کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے چائنا پاکستان کی سیاسی قیادت سے بڑی امید لگائے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں استحکام کے لئے ذاتی مفادات کو ایک طرف اور قومی ترجیحات کو مقدم رکھیں۔اور اس کے لئے ڈائیلاگ کی میز پر بیٹھیں۔آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ،بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے بیان پر حکومت پاکستان شدید ردعمل کا مظاہرہ کرے۔ اصل حقائق پوری دنیا کے سامنے آنے چاہیں۔، ہندوستان کا دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنا، ان کو عسکری تربیت اور مالی معاونت فراہم کرنا،افغانستان میں طالبان حکومت سے قبل جس طرح بھارت افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے پاکستان مخالف شدت پسندوں کو تیار کرتا، ان کی ذہین سازی کرتا رہا ہے اور پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ سفارتخانہ کھول کر دہشت گردوں کو سپورٹ کرتا رہا ہے سب کچھ عالمی فورمز پر بھرپو ر توانائی کے ساتھ اٹھانا ہوگا۔

مزیدخبریں