قرض سے نجات کا نسخہ 

ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ 

قرض لینے میں جتنی مشقت  اور ذلالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان تکلیف دہ لمحات کا اظہار الفاظ میں مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔لہذا قرض  سے  جس قدر جلد نجات حاصل کر لی جائے بہتر ہے!! سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور سوچیں کہ قرض سے کیسا چھٹکارا پایا جائے۔ یہ درست ہے کہ ہمارا ملک یوں تو زرعی کہلاتا ہے مگر ہے اب آثار ایسے نہیں ۔ ہم اپنی زراعت پر توجہ دیں تو یہ مٹی زرخیز ہے  شہری محنتی ہیں  مگر ہم دو نمبر کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اس کے لئے قانون کا استعمال کر کے جعل سازی کے کام کو روکا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں قانون تو ہے مگر اس کے حالات برے ہیں ۔یہاں قانون موم کی ناک جیسا دکھائی دیتا ہے  جس کی وجہ سے دو نمری کے حامل افراد ڈرتے نہیں۔کہا جاتا ہے کہ اکثرعہدے دو نمبری سے پائے جاتے ہیں پھر خود بھی  دو نمبری کرتے ہیں۔ قانون سے آزاد ہیں ۔ اسلئے ہمارے یہاں جج صاحبان پر بھی کرپشن کے الزام لگ رہے ہیں مگر ان پر کیس چلائے نہیں جاتے اگر جوڈیشری ٹھیک نہیں ہوگی تو پھر کوئی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے ہم اب دو نمبری میں پہلے نمبر آ چکے ہیں۔  اب قرض بھی نہیں مل رہا۔خود کاشت نہیں کرتے ہر چیز باہر سے منگوا رہے ہیں ۔اس کے لئے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ’’زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ‘‘لیکن فی الحال اس کو سمجھنے کے لئے اس داستان کو سمجھنا ضروری ہے ۔کہانی کچھ یوں  ہے۔کسی زمیندار کی بھینس نے دودھ دینا بند کر دیا، جس کی وجہ سے زمیندار بڑا پریشان تھا۔اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا،ڈاکٹر نے ٹیکے لگائے لیکن کوئی فرق نہ پڑا،تھک ھار کر وہ بھینس کو ایک پیر کے پاس لے گیا،اس  نے دم کیا، پھونکیں ماری لیکن اس سے فرق نہ پڑا ۔ اس کے بعد وہ بھینس کو کسی سیانے حکیم  کے پاس لے گیا، سیانے نے دیسی ٹوٹکے آزما ئے لیکن وہ بھی بیکار ثابت نہ ھوئے۔ آخر میں زمیندار نے سوچاکہ شاید اس کا کھانا بڑھانے سے مسئلہ ٹھیک ھو جائے تو وہ اسے ماں جی کی خدمت میں لے گیا، ماں جی نے خوب کھل بنولہ کھلایا، پٹھے کھلائے کسی چیز کی کسر نہ چھوڑی۔لیکن بھینس نے دودھ دینا شروع نہ کیا۔تنگ آ کر  وہ اسے قصائی کے پاس لے کر چل دیا کہ یہ اب کسی کام کی نہیں رہی توچلو ذبح ھی کروا لوں۔راستے میں اسے دوسرے گا?ں کا چوہدری ملا۔ پوچھا خیر تو ہے پریشان لگتے ھو
زمیندار نے اپنی پریشانی بیان کی، اس نے کہا تم کٹا کہاں باندھتے ھو؟"، زمیندار بولابھینس کی کھْرلی کے ساتھ پھر پوچھا؟کٹے کی رسی کتنی لمبی ھے؟" زمیندار بولا کافی لمبی۔یہ سن کر اس  نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولا! سارا دودھ تو یہ تیرا کٹا پی جاتا ھے۔تمھیں کیا خاک ملے گا، کہا جائو گھر واپس کٹے کو بھینس سے دور باندھو"پھر دیکھو دودھ کیسے نہیں ملتا ۔اس نے ایسا ہی کیا تو اسے بھینس کا دودھ ملنے لگا۔ یقین کریں ہمارے ملکی معاشی حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں  اگر ان کی رسی بھی کم کر دی جائے تو ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔ابھی تک تو یہی لگتا ہے کہ اگر جوڈیشری ٹھیک ہو جائے تو ۔ لوگ قانون پر عمل کرنا شروع کر ریں گے۔دوسرا یہ کہ  ملکی اداروں کے اخراجات کو  کنڑول کیا جائے ۔یہاں ایک ادارے کی کہانی ہے یہ سمجھا جائے تمام اداروں کی یہی کہا نی ہے ۔قومی اسمبلی اور سینٹ کی 50 کمیٹیاں اور ھر کمیٹی کا ایک چیئرمین ھے۔
ھر چیئرمین کے ذاتی دفتر ہیں ھر چیئرمین ایک لاکھ ستر ھزار روپے ماھانہ تنخواہ لیتا ھے ، اسے گریڈ 17 کا ایک سیکرٹری،گریڈ 15 کا ایک سٹینو،ایک نائب قاصد بھی ہے۔پھر 1300cc کی گاڑی چھ سو لیٹر ماھانہ پٹرول فری ایک رھائش فری  پھر رھائش کے سارے اخراجات کے بل وغیرہ اس کے علاوہ ملتے ھیں اس کے علاوہ اجلاسوں پر لگنے والے پیسے،دوسرے شھروں میں آنے جانے کے لئیے فری جہاز کے ٹکٹ ۔ ایک اندازے کے مطابق یہ کمیٹیاں اب تک کھربوں روپوں کھا رہی ھیں۔ایسی ہی حالت تمام اداروں کی ہے اگر ان کو بھینس کا کٹا سمجھ لیا جا تو کٹوں کی رسی کو کم نہ کیا گیا تو یہ ادارے کٹیکا رول ادا کرتے رہے گے یہ ایسے ھی کھربوں روپوں کا دودھ "پیتے" رھیں گے، اسی طرح دوسرے ادرے بھی اپنے اپنے کٹوں کی رسی کم  کر لیں تو حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں جیسے سپریم کورٹ کے ججز کی رہائشگاہ  ایک جگہ پر ہے۔ کام کرنے والی عدالتیں ایک جگہ پر ہیں اگر روز الگ الگ انے جانے کے بجائے ایک لگثری کوسٹر پر ایا جایا کریں اور تنخوائوں میں پندرہ کے بجائے پانچ لاکھ لے لیا کریں۔اچھی مثال پیش کر سکتے ہیں۔   اسی طرح تمام اداروں کے چیرمین پانچ لاکھ پر کام کیا کریں  اسی میں پٹرول گیس بجلی فون کے بل ادا کیا کریں گھر کے لئے ایک ڈرائیور ایک خانساماں رکھنے کی اجازت ہو تو یہ تنخواہ کافی ہے ایسا ہی فورسسز کے ادارے  اخراجات کی کاٹ چھانٹ کریں کٹے کی رسی کو کم کریں تو تمام سرکاری گریڈ سولہ کے ملازمین کی طرح رہے تو ملکی معاشی حالات بہتر ہو سکتے ہیں پھر آئی ایم ایف سے نجات مل سکتی ہے ۔بس کہا جاتا ہے مختلف  اداروں کی رسی بھنس کے کٹیکی رسی جیسی کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ملک کے  تمام ایم این اے سینٹرز ججز ۔جنرلز سیکٹری کے بچے تعلیم اور علاج یہاں سرکاری اداروں سے کرائیں اگر  ایسا نظام لے آتے ہیں تو۔پھر کسی کو کسی سے قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی اورملک ترقی کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن