للہ ِ! مْلک و قوم کا سوچیں  ؟ 

May 08, 2023

تنویر بھائی

 تنویر اِزم… تنویر بھائی 
tanveerbhai@outlook.com
 وطن عزیز میں 8 مارچ 2022 سے جاری سیاسی عدم استحکام معیشت کا  ستیاناس کرنے اور عوام کے تمام تَر کَس بَل نکالنے کے بعد بد ترین آئینی بحران کا شکار ہوچکا ہے اور اس بحران کی چنگاری شعلوں میں تبدیل  ہوتی جارہی ہیں- آئینی اداروں کے درمیان اختیارات کی بالادستی کے لئے لڑی والی جنگ ملک وقوم کو ایک نئے امتحان سے دوچار کرنے کے لئے تیار ہے- آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح اور بعد ازاں پنجاب میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد سپریم کورٹ اور حکومتی اتحاد میں شروع ہونے والی سرد جنگ اب عدالت عظمی اور پارلیمنٹ کے درمیان محاذ آرائی کی آخری حدود کو چھو رہی ہے-
ملک کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے پر لگانے کے بجائے  اقتدار کے تمام سٹیک ہولڈرز اپنی اپنی ڈفلی بجانے اور سیاسی پوائنٹ سکورننگ کرنے میں مصروف ہیں-ملک کو موجودہ صورت حال سے کیسے نکالا جاسکتا ہے کسی ایک کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ؟ جمہوریت اور وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے استحکام میں ملک اور عوام دونوں کا فائدہ ہے لیکن اس کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے اس کی معمولی سی جھلک بھی اس وقت مْلک میں دکھائی نہیں دیتی-
ملک کی جمہوریت اور معیشت کو آگے بڑھا نے کے لئے ڈیڈ لاک نہیں ڈائیلاگ سے کام لینے' زخموں کے اوپر مرہم رکھنے' تقسیم نہیں تفہیم کا رویہ اپنانے اور مملکت خداداد پاکستان کو مسائل ومشکلات اور بحرانوں سے نکالنے کے لئے انتشار' افراتفری اور تصادم کی نہیں افہام وتفہیم کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے پاکستان اس وقت جن اندرونی وبیرونی چیلنجز کا شکار ہے اس سے نبرد آزما ہونا کسی ایک جماعت یا آئینی ادارے کے بس کی قطعاً بات نہیں۔  ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے اقتدار کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے اْن کی اپنی اناؤں کو قربان کرنا پڑے گا جس کیلئے وہ تیار نہیں اور یہ اناپرستی  ملک و قوم کی خودمختار آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 
 تاریخ اپنے آپ کو دھرانے پر تلی ہوئی ہے۔ یہی وقت ہے کہ ریاست کو بچایا جائے ۔ ملک و قوم سے وفاداری کا تقاضا  تو یہ ہے کہ فریقین صبر و تحمل' برد باری اور برداشت سے کام لیں اور ذاتی مفادات پر قومی مفاد کو ترجیح دیں تاکہ ملک سے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوسکے مگر ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے-سیاست کا موجودہ چلن اور اقتدار کی رسہ کشی پورے نظام کو زمین بوس اور ملک وقوم کو کسی بڑے امتحان سے دوچار کرسکتی ہے- ریاست کے سٹیک ہولڈرز کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ بہت بڑھ چکا ہے اور وہ ایک دوسرے کو کچلنے کے راستے پر گامزن ہیں-
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنائ￿  اللہ کا نجی ٹی وی سے بات چیت میں یہ کہنا  خطرے  کی گھنٹی سے کم نہیں ہے کہ حکومت ' پارلیمنٹ اور ن لیگ کے لئے اب پیچھے ہٹنے کا موقع نہیں' وار سپریم کورٹ کی جانب سے ہوگا' نوٹس تو ان کی طرف  سے ہی جاری ہوگا ان کے فیصلے پر عمل درآمد ہو گا۔ تو حکومت اور پارلیمنٹ کا نقصان عمل نہ ہوا تو انہیں سجاد علی شاہ کی طرح جانا پڑے گا ان کا مزید کہنا تھا کہ لانگ مارچ کے نتیجے میں ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال ہونے والوں میں اس وقت کے چیف جسٹس اور کچھ ججز میں موجودہ چیف جسٹس عمر عطائ￿  بندیال بھی شامل تھے اگر وہ آرڈر واپس لے لیا جائے تو نتائج پھر ظاہر ہیں کیا ہوں گے؟ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر کابینہ میں تو بات نہیں ہوئی مگر قانون کے ایک طالب علم کے طور پر میرے خیال میں اگر ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے چیف جسٹس کی بحالی ہوسکتی ہے تو وہ رخصت بھی ہوسکتے ہیں-
ارض پاک اس وقت اندرونی وبیرونی سازشو ں کا شکار ہے دشمن بڑے اور دیرپا مذموم نتائج حاصل کرنے کے لئے گھات لگائے بیٹھا ہے- تصادم' محاذ آرائی کی موجودہ صورتحال قومی سلامتی کے لئے جس طرح دن بدن خطرناک ہوتی جارہی ہے ہر باشعور پاکستانی کو اس کا بخوبی اندازہ ہے اور فکرمند ہے۔ صورت حال جس تیز رفتاری کے ساتھ خرابی کی جانب جارہی ہے اس کا بر وقت تدارک نہ کیا گیا تو ملک  کے حالات  انتہائی ابتر ہوسکتے ہیں - آئینی اداروں کے درمیان جاری لڑائی میں فاتح تو شاید کوئی نہ بن سکے مگر ہار پاکستان اور عوام کی ہوگی-
 ملک کی داخلی سیاست میں سارے سیاسی طاقت سے جڑے فریقین کے درمیان اصل جنگ سیاسی مہم جوئی کی بنیاد پر چل رہی ہے- سیاست دانوں سمیت طاقت ور طبقات ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں- سیاسی اور معاشی معاملات میں بہتری کی بجائے اور زیادہ ابتری کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ملک کو درپیش حالیہ بحران میں بننے والی نئی تقسیم کی بنیاد پر ہمیں روزانہ نئے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جو اس سیاسی تقسیم کو نہ صرف اور زیادہ گہرا کر رہے ہیں بلکہ اداروں کے اپنے درمیان یا ان کے سیاسی فریقین کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی ہمیں دن بدن مزید بے بس کرتی جارہی ہے-
قومی سیاست میں اداروں اور حساس معاملات کو جس انداز میں بنیاد بنا کر تنقید اور حمایت کی جادو گری کا کھیل کھیلا جارہا ہے وہ بذات خود صورت حال کی سنگینی کو سمجھنے کے لئے کافی ہے- موجودہ کھیل اگر اسی مہم جوئی کی بنیاد پر چلتا رہے گا تو اس سے معاملات درست ہونے کے بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہوتے جائیں گے اس وقت اصل مسئلہ سیاست ، دیگر فیصلہ ساز افراد یا اداروں کا ہے کہ وہ اپنی انا پرستی اور اس سیاسی مہم جوئی کے کھیل سے باہر نکل کر ایسا راستہ اختیار کریں جو ملکی سیاست میں سیاسی ومعاشی استحکام اور آئینی بحران کا خاتمہ کرسکے-
پاکستان میں حکومتیں بنانے اور گرانے کے کھیل سے جڑے پس پردہ طور طریقے اب بے نقاب ہوچکے ہیں-لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کھیل کون بناتا  ہے اس میں رنگ کون بھرتا ہے اور کن کرداروں کو استعمال کرکے ایک دوسرے کی حمایت یا مخالفت میں پیش کئے جاتے ہیں-بہت ہوچکا اب ! ہم ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے سیاست کے مسلمہ اخلاقی رو لز آف گیم اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے- ہمیں ماضی اور حال کے تضادات سے باہر نکلنا ہوگا-چور' چور/ ڈاکو' ڈاکو کا بیانیہ ملک وقوم دونوں کو اس مقام پر لے آیا ہے جہاں آگے دلدل پیچھے گہری کھائی ہے-
 اختیارات کی بالادستی اورحرص و اقتدار کی لڑائی میں قوم کو تیزی کے ساتھ جس انتشار و انارکی کی جانب بڑھایا جارہا ہے اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے پوری قوم کو تمام تر سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا-  ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی' اقتصادی وآئینی بحرانی کیفیت' اب بہت حساس صورتحال اختیار کر چْکی ہے لیکن اب بھی وقت ہے عوام سیاست دانوں کے بہکاوے میں آکر زندہ باد' مردہ باد ' چور اور ڈاکو کے نعروں سے باہر نکل کر بحیثیت پاکستانی ارض پاک کو انتشار' افراتفری' انارکی اور عدم استحکام سے بچانے کے لئے کراچی سے خیبر تک یکجان ہو جائے وگرنہ موجودہ حالات میں ہماری خاموشی' مصلحت اور سیاسی وابستگیاں صدیوں کی خطائ￿  بن سکتی ہے- استغفراللہ ، استغفراللہ ، استغفراللہ

مزیدخبریں