پاکستان میں منکی پاکس کی الارمنگ صورتحال  نہیں 

زیادہ تر کیسز سعودیہ سے پاکستان آئے
نگران وزیر صحت پنجاب پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم سے خصوصی گفتگو
وائرل بیماری سے زخموں کاا نفیکشن  14سے 21 روز تک رہتا ہے،پروفیسر ڈاکٹرخالد بن اسلم

حج عمرہ کے اکثر زائرین کا تعلق افریقہ سے ہے ،اس لیے بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں

عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
چیچک سے ملتا جلتا منکی پاکس جس کا وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کی اہلیت رکھتا ہے کے اب تک پاکستان میں تین کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ 
کیسز کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے ملک کے تمام ہسپتالوں اور بین الاقوامی ایئر پورٹس پر  الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ پاکستان میں حالیہ سامنے آئے والے کیسز کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے بلکہ یہ وائرس بیرون ممالک سے آئے مسافروں کے ذریعے آیاہے۔ گزشتہ سال سے لیکر اب تک پوری دنیا میں منکی پاکس کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے، یکم جنوری 2022 سے 4 مئی 2023 کے درمیان عالمی ادارہ صحت کو 87 ہزار 113 تصدیق شدہ کیسز رپورٹ ہوئے۔
 منکی پاکس کا نام سن کر اگر آپ کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اس کے پھیلاؤ میں بندر کی شرارت شامل ہے تو آپ کا اندازہ غلط ہے۔
دراصل انسانوں میں منکی پاکس کا کیس سامنے آنے سے سالوں پہلے 1958 میں ڈنمارک کی ایک تجربہ گاہ میں رکھے گئے دو بندروں کو یہ بیماری ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کا نام منکی پاکس پڑ گیا۔ سنہ 1970 کے بعد 10 افریقی ممالک میں اس کے پھیلنے کی اطلاع ملی ۔سنہ 2003 میں امریکہ میں ایک وباء پھیلی جو پہلی بار افریقہ سے باہر دیکھی گئی تھی۔ مریضوں میں یہ بیماری پریری کتوں کے قریبی رابطے سے آئی تھی جو ملک میں درآمد کیے گئے چھوٹے میملز سے متاثر ہوئے تھے۔
یہ بات طے ہے کہ اس وائرس کا منبع بندر نہیں ہیں اور نہ ہی یہ وائرس بندروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔امریکی ریاست نیو جرسی کے محکمہ زراعت کی ویب سائٹ پرموجود اعداد و شمار کے مطابق ایک انسان سے دوسرے انسان میں منکی پاکس کی منتقلی کی شرح 3.3 فیصد سے 30 فیصد کے درمیان ہے۔اگر کسی شخص میں منکی پاکس وائرس موجود ہے تو علامات ظاہر ہونے سے قبل ہی وہ اس وائرس کو دوسرے انسان میں منتقل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ عام طور پر متاثرہ شخص کو زیادہ سے زیادہ 21 روز تک دوسرے لوگوں سے میل جول نہیں رکھی چاہیے ورنہ وائرس منتقل ہوسکتاہے۔
پاکستان میں حال ہی میں منکی پاکس کے کیسز سامنے آئے۔اس وائرس کے شکار مریضوں میں سے دو کا تعلق پنجاب اور ایک کا کراچی سے ہے۔ پنجاب میں منکی پاکس کے مریض رپورٹ ہونے کے بعد نگراں وزیر صحت پنجاب پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے تمام ہسپتالوں میںخصوصی اقدامات جاری کیے ہیں۔ جبکہ جنرل ہسپتال لاہور اور چلڈرن ہسپتال کو مریضوں کے علاج کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ نگراں وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم سے نوائے نے منکی پاکس سے بچائو کے اقدامات جاننے کے لیے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے منکی پاکس کی تشخیص اور ٹریننگ کے لیے لاہور میں انسٹیٹیوٹ آف  پبلک ہیلتھ میںمنکی پاکس ڈیزیز وارننگ سینٹر قائم کیا ہے۔یہاں ایمبولینس کے ڈرائیورزسے لیکرایئر پورٹ اور ہسپتالوں کے ڈاکٹرز تک کی ٹریننگ ہوگی ،چاہے وہ پرائمری کے ہیں یا سپیشلائزڈ ہیلتھ کے۔چونکہ یہ بیماری سانس کی بجائے فزیکل Contact سے پھیلتی ہے لہذا اس بات کی ٹریننگ لازمی ہے کہ کس طرح خود کو محفوظ رکھنا ہے۔اس کے علاوہ یہاں کیس رپورٹنگ بھی ہے۔ یعنی جسے بھی مرض کا شبہ ہو وہ وہاں آکر بتائے اورہ یہیں سے وائرس کی تصدیق کا مرحلہ بھی ہوگا کہ مرض ہے یا نہیں۔پی سی آر بھی وہیں ہوگی اور یہی سے ٹیم بھی جائے گی۔
 یہ بیماری پاکستان میں Originate  نہیں کر رہی۔ یہ بیماری افریقہ میں جانوروں سے انسانوں میں آئی ہے اس کے بعد انسانوں سے انسانوں کو لگ رہی ہے۔اب تک جتنے بھی کیسز پاکستان میں رپورٹ ہوئے ہیں ان میں زیادہ  سعودی عرب سے آئے ہیں۔پہلاکیس جدہ  میں ٹیکسی ڈرائیور تھا اور کچھ روز قبل پاکستان آیا ہے۔ جدہ میں عمرہ اور حج کی وجہ سے ٹریول کافی ہوتا ہے ہے اور ٹیکسی ڈرائیورز کا مسافروں سے رابطہ بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ سعودی عرب میں عمرہ اور حج کے لیے آئے زائرین میں اکثر کا تعلق افریقہ سے بھی ہے لہذا  بیماری لگنے کی ممکنات بڑھ جاتی ہیں۔مذکورہ ڈرائیور ویزہ مدت ختم ہونے کے باعث جدہ سے ڈی پورٹ ہوکر پاکستان آیا۔ پاکستان آنے سے قبل اس ڈرائیور میں علامات ظاہر ہو چکی تھیں لیکن اسے اسی طرح جہاز پر چڑھا دیا گیا۔جدہ میں موجود امیگریشن اتھارٹی نے بھی اس بات کا خیا ل نہیں رکھا۔حالانکہ ہر ایئر پورٹ پر ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں۔
جہاز پر بھی جب مریض کی طبیعت خراب ہوئی تو اسے پچھلی سیٹوں پر لیٹا دیا گیا اور پیراسیٹامول دے دی۔یہاں Arrivel 
پر جہاز انتظامیہ کا فرض ہوتا ہے کہ بتائیں کہ اس کی طبیعت خراب ہے۔ لیکن انھوں نے نے یہاں بھی کسی کو نہیں بتایا۔اس کے بعد ایئر پورٹ پر ہماری ڈاکٹرز نے بھی توجہ نہیں دی اور مریض کو جانے دیا۔یعنی منکی پاکس سے متاثرہ مریض راولپنڈی گھر گیا، جہاں اس کی طبیعت خرابی پر ہسپتال لایا گیا۔میرے خیال میں بین الاقوامی طور پر اس صورتحال کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔البتہ ابھی ملک میںا لارمنگ صورتحال نہیں ہے۔ امید ہے کہ  پاکستان میںمنکی پاکس کے کیسز میں مزید اضافہ نہیں ہو گا اور یہ بیماری یہیں ختم ہو جائے گی۔ڈاکٹر جاوید اکرم نے مزید کہا کہ حج کا سیزن بھی شروع ہونے والا ہے اور میرا خیال ہے کہ سعودی عرب کی انتظامیہ منکی پاکس اور کووڈ 19 کے خطرات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے مناسب اقدامات اٹھائے گی۔خصوصا حج زائرین کو آگاہی دیں کہ گلے نہ ملیںاور ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔جبکہ اگر کسی میں بخار کی علامت،جسم درد یا دانے ہیںہو تو اسے مسجد نبوی اور حرم سے دور قرنطینہ میں رکھیں ۔ جبکہ پاکستانی گورنمنٹ کو بھی چاہیے کہ جانے والے حج زائرین کو اس بارے میں آگاہی دیں اور دوران حج پاکستانی زائرین سے رابطے میں رہیں۔
ڈاکٹر جاوید اکرم نے بچوں میں بیماری پھیلنے سے متعلق بتایا کہ آٹھ سال سے پندرہ سال کے بچوں میں بیماری لگنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔اس مرض کی ویکسینیشن ہالینڈ اور نیدرلینڈ میں موجود ہے لیکن دنیا میں کہیں بھی وہ ویکسینیشن لگائی نہیں جارہی۔ سمال پاکس کے لیے ہم نے جو ویکسینیشن استعمال کی تھی وہی منکی پاکس کے لیے بھی کار آمد ہے۔سمال پاکس کی ویکسینیشن ہماری آبادی کے بڑے حصے کو لگی ہوئی ہے لہذا وہ منکی پاکس سے محفوظ ہیں۔ جنرل ہسپتال لاہور جہاں منکی پاکس کے دو مریض رپورٹ ہوئے تھے کے ایم ایس  پروفیسر ڈاکٹر خالد بن اسلم سے ہم نے مریضوں کے حالت جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ منکی پاکس کے دو نوں مریضوں کاٹیسٹ اب منفی آگیا ہے اور وہ ڈسچارج ہوکر گھر چلے گئے ہیں۔ فی الحال مزید کوئی مریض منکی پاکس کی شکایت کیساتھ نہیں آیا۔منکی پاکس کے شکار مریض جن کی تشخیص مرض کی ابتداء میں ہوجائے کو ہم اینٹی وائرل تھراپی دیتے ہیں۔اس کے علاوہ سمٹومیٹک تھراپی بھی دی جاتی ہے۔ 
جنرل ہسپتال کے ایم ایس پروفیسر ڈاکٹر خالد بن اسلم نے مزید بتایا کہ یہ ایک وائرل بیماری ہے جس کی علامات بخار،جسم درد،سردی لگنا،پٹھوں میں سوجن ،تھکاوٹ، جلد پر ریش گلٹیاں اور بعض اوقات کمزوری بڑھ جاتی ہے۔ایک بار جب بخار اترتا ہے تو جسم پر دانے آسکتے ہیں،یہ دانے اکثر چہرے سے شروع ہوتے ہیں پھر جسم کے دوسرے حصوں  عام طور پر ہتھیلوں،پائوں کے تلووں تک پھیل جاتے ہیں۔دانے انتہائی خارش والے یا تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔ بعد میں سوکھ کر گر جاتے ہیں۔البتہ زخموں سے داغ پڑ سکتے ہیں۔یہ انفیکشن عام طور پر 14 سے 21 دنوں تک رہتا ہے اور پھر خود ہی ختم ہو جاتا ہے۔
پروفیسر داکٹر خالد بن اسلم نے مزید کہا کہ انفیکشن سے بچائو کے لیے بار بار ہاتھ دھوئیں،ہاتھ ملانے یا گلے ملنے سے گریز کریں۔گرم پانی اور صابن سے کپڑوں کو دھوئیں اور سطح کو بلیچ سے صاف رکھیں۔

ای پیپر دی نیشن