ایف بی آر میں ہاتھیوں کی لڑائی

May 08, 2024

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ

ان دنوں نیشنل میڈیا خبروں کے حوالے سے جن دو ایشوز پر اپنی تمام توانائیاں اور توجہ مرکوز کیئے ہوئے ہے ان میں ایک تو گندم خریداری کا بحران اور اس سے ج±ڑا نگران حکومت کے دور کا گندم سکینڈل ہے جبکہ دوسرا ہاٹ ایشو جسکی طرف ہر کاروباری بندے کی نظر لگی ہوئی ہے وہ ایف بی آر سے ج±ڑے معاملات اور پچھلے ہفتے اس محکمہ میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ ہے۔جسطرح موجودہ گندم سکینڈل اور اس سے ج±ڑی حقیقتیں نئی نہیں اسی طرح ایف بی آر میں ہونے والی اس اکھاڑ پچھاڑ کے پیچھے کھیل کھیلنے والوں نے کیا کھیل کھیلا وہ بھی نیا نہیں۔ کیونکہ میرے پچھلے تینوں کالم ایف بی آر کے حوالے سے ہیں اس لیئے وقت اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ اسی سٹوری کو فالو کیا جائے۔
قارئین! یقین جانیئے ایف بی آر میں کیا سیاست اور کس طرح کھیلی جاتی ہے اس پر سے اگر پردہ ا±ٹھایا جائے تو آپکو اس ملک کے سیاستدانوں کے درمیان ہونے والی رسہ کشی محض محلہ کے لیول کا ایک کبڈی میچ لگے گی جبکہ ایف بی آر کے اندر ہونے والی سازشوں کی حقیقتیں اگر آپ پر آشکار ہو جائیں تو آپ کہیں گے کہ یار یہ تو وہ اکھاڑہ ہے جہاں پر فری اسٹائل انداز میں ایسے میچ کھیلے جاتے ہیں جہاں پر کھیل کے جذبہ کو ایک طرف رکھ کر ہر جائز اور ناجائز حربہ کو اولیت دی جاتی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا، اس محکمہ میں کھینچا تانی اور سازشوں کا کھیل نیا نہیں بہت پرانا ہے جس سے پردہ ہٹانے کیلئے پوری ایک کتاب کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جگہ کی بندش کی وجہ سے بات ماضءقریب سے شروع کرتے ہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں یہ پی ٹی آئی کے دور حکومت کی بات ہے۔ ان لینڈ ریوینیو سے تعلق رکھنے والے ایک آفیسر چیئرمین ایف بی آر کی سیٹ پر براجمان ہوتے ہیں جبکہ اسی سروس سے تعلق رکھنے والے ایک اور صاحب جن کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا جاتا ہے اور جنکی دلی اور عملی ہمدردیاں پی ٹی آئی کے ساتھ کسی طرح چھپی نہیں ہوتیں، وہ ممبر سیلز ٹیکس کی سیٹ پر ہوتے ہیں۔ یاد رہے جن صاحب کا ذکر کرنے چلا ہوں یہ وہی صاحب ہیں جو 2013ءمیں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے ایف بی آر کے چیرمین کی تقرری کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں گئے تھے اور وہاں سے انکی بیدخلی کا آرڈر لیکر آئے تھے۔ خیر بات کو آگے لیکر چلتے ہیں ا±س۔ وقت کے چیرمین ایف بی آر کو کسی حوالے سے کسی ضروری بریفنگ کیلئے ایک انتہائی اہم عسکری ادارے میں بلایا جاتا ہے جو کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ ڈاکٹر صاحب 2013ءسے اپنے دل میں چیرمین ایف بی آر بننے کی خواہش لیے بیٹھے ہوتے ہیں اور پردے کے پیچھے پی ٹی آئی قیادت سے مکمل رابطوں میں ہوتے ہیں۔ اس لئے اس موقع کو وہ گولڈن چانس سمجھتے ہیں اور پی ٹی آئی قیادت کو یہ باور کراتے ہیں کہ چیرمین ایف بی آر کی اہم ادارے میں بریفنگ شائد پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کسی ممکنہ چارج شیٹ کی تیاری کے سلسلے میں تھی۔ ریکارڈ ا±ٹھا کے دیکھ لیں اس ملاقات کے تیسرے دن اس چیرمین صاحب کو قلم کی ایک ج±نبش سے ہٹا دیا جاتا ہے اور موصوف کو ممبر کی سیٹ سے ا±ٹھا کر چیئرمین کی سیٹ پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ اسکے بعد اس چیئرمین کی موجودگی میں مرکزی سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں جسطرح انکی طرف سے ایف بی آر کے افسران کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور جسطرح حقداروں کو انکے حق سے محروم کر کے اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعظم کے بھائی اور ایک پی ٹی آئی کی ممبر قومی اسمبلی کے خاوند کو ترقی دلائی گئی وہ بھی اب کوئی راز نہیں کہ کس طرح اس محکمہ میں قابل اور لائق ترین افسران پر سازشی لوگ غلبہ حاصل کرتے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت بھی اسی ایف بی آر میں قابل ترین، محنتی اور لین دین کے معاملات سے مبرا لوگ موجود ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان لوگوں کو آگے بڑھنے کا±موقع نہیں ملتا اور جو کوئی مکرم جاہ انصاری کی طرح سامنے آ جاتا ہے اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ بغیر کسی خوشامد اور بغیر کسی ع±ذر کے راقم یہ کہنا چاہے گا کہ بلاشبہ ایف بی آر میں اسکی اصلاح کیلئے وزیراعظم کی طرف سے ا±ٹھایا قدم ایک دلیرانہ اور معتبرانہ فیصلہ ہے لیکن ایسے اقدام کیلئے ایک جامع میکنزم اور مربوط حکمت عملی ہونی چاہیئے جسکے تحت سازشوں کی بناءپر نہیں حقائق کی روشنی میں اقدامات ا±ٹھائے جائیں۔ ان آرڈروں میں ایک مکرم جاہ انصاری ہی نہیں آپ احمد رو¿ف کو ہی دیکھ لیں پچھلے پانچ سال سے کسی اہم پوسٹ پر نہیں لیکن لابنگ کی نذر ہو گیا۔ ڈاکٹر مبشر بیگ کو دیکھ لیں اگلے پانچ ماہ میں ریٹائر ہو رہا ہے، سیاست کی سولی چڑھ گیا۔
 اقتدار کی راہداریوں کی سرگوشیوں پر نظر رکھنے والے تو اس گیم کے اصل کھلاڑیوں سے بہت پہلے واقف تھے کہ پاکستان کی تاریخ میں احمد شجاع پاشا ہی نہیں کئی اور پاشا بھی تخت نشین ہیں جو لوگوں کی عزت کے فیصلے کرتے ہیں اور پھر پچھلے ہفتے وزیراعظم صاحب نے جن افسران کو اعزازی شیلڈوں سے نوازا اس نے اگلے ایک سال کیلئے ایف بی آر کی ہئیت ترکیبی کو بالکل واضع کر دیا ہے۔ رہا سوال کہ اگلے ایک سال ایف بی آر کی کارکردگی کیسی رہے گی تو زمینی حقائق اور واقعاتی شہادتوں کی موجودگی میں راقم کا یہ قیاس ہے کہ نتائج کسی صورت ماضی سے مختلف نظر نہیں آتے۔ اور اگر یہاں کوئی بہتری لانا مقصود ہے تو ان لینڈ ریوینو اور کسٹم کی باہمی چپقلش سے چھٹکارا پانے کیلئے اسکی قیادت ڈی ایم جی گروپ یا کسی اور کو دے دی جائے جیسے ماضی میں صدیق سلیمان اور یوسف عبداللہ اسکی روشن مثال ہیں۔

مزیدخبریں