قومی مفاہمت یا محاذ آرائی؟

پاکستان بد قسمتی سے 1988ءسے آج تک مسلسل محاذ آرائی کا شکار رہا ہے- راقم پی پی پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے افسوس ناک محاذ آرائی کا عینی شاہد رہا - یہ محاذ آرائی ہر گز عوام کے اجتماعی مفاد کے لیے نہیں بلکہ سیاسی گروہی اور ذاتی مفادات اور اقتدار کی مصلحتوں کے لیے ہوتی تھی - اس محاذ آرائی کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور عوام کو پہنچا-سیاسی محاذ آرا ئی ریاستی اداروں کی مداخلت، تقسیم اور انتشار کی وجہ سے پاکستان کا معاشی بحران اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے-پاکستان خطرناک اور مہلک ڈیڈ لاک کی شکل اختیار کر چکا ہے- ملٹی پل بحران سے باہر نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی- محاذ آرائی کا تسلسل جاری رہا تو یہ عمل اجتماعی خودکشی کے مترادف ہو گا -پاکستان کے خیر خواہ موجودہ تشویشناک صورتحال سے سخت پریشان ہیں- ان میں سے اکثر خیر خواہ اپنے گھروں میں بیٹھے کڑھتے رہتے ہیں جبکہ کئی سوچ بچار کرنے والے فکر مند دانشور اپنی اپنی اہلیت اور استطاعت کے مطابق ڈیڈلاک کا حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں- ان میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی شامل ہیں جو پاک فوج میں کور کمانڈر بہاولپور رہے- 2011ءمیں سیکرٹری دفاع اور چیف ایگزیکٹو فوجی فرٹیلائزرز رہے- انہوں نے 2018ءکی نگران حکومت میں وفاقی وزیر برائے نیشنل سکیورٹی کی حیثیت سے فرائض انجام دیے- جنرل لودھی کچھ عرصہ تحریک انصاف کے تھنک ٹینک میں سیکریٹری ڈیفنس و سٹریٹیجی کے طور پر بھی مشاورت کا حصہ رہے- انہوں نے حال ہی میں موجودہ تشویشناک ڈیڈ لاک سے نکلنے کے لیے ایک مفاہمتی فارمولا پیش کیا ہے- ان کے مطابق پاکستان کو عبوری مدت کے لیے ایسی فوری قومی مفاہمت کی ضرورت ہے جو اتفاق رائے سے ریاستی اداروں میں اصلاحات اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد پیدا کر سکے- جنرل لودھی کے مطابق پاکستان کو اپنی آزادی اور سلامتی کو یقینی اور محفوظ بنانے کے لیے سیاسی اور معاشی استحکام کی سخت ضرورت ہے جس کے لیے لازم ہے کہ پاکستان اور عوام کو کم از کم دو سال کا عرصہ دے دیا جائے-نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے جس میں چیف جسٹس پاکستان، تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان، بزنس کمیونٹی، میڈیا، لیگل کمیونٹی اور خواتین کے نمائندے شامل ہوں-بلیم گیم اور اشتعال انگیز بیانات پر فوری طور پر پابندی لگا دی جائے- سیاسی انتقام کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے- ان تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کر دیا جائے جن کے خلاف لا قانونیت کے سنگین الزامات اور شواہد نہیں ہیں تاکہ قومی مفاہمت کے لیے ماحول کو سازگار بنایا جا سکے- عدالتیں اور ٹریبیونل فوری سماعت کر کے انتخابی اور سیاسی مقدمات کے فیصلے کریں-دو سال کی مدت کے دوران سیاسی اور جمہوری آزادیاں محدود کر دی جائیں اور سڑکوں پر جلسے اور احتجاج کرنے سے گریز کیا جائے-سیاسی جماعتیں صرف تنظیمی اجلاس کریں- 
2024ءکے انتخابات کا ایک مثبت پہلو یہ نکلا ہے کہ پاکستان کی تین بڑی جماعتیں تین صوبوں میں حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں-وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کے مسائل پر توجہ دیں اور پانی سیوریج صفائی تعلیم صحت اور انصاف کے سلسلے میں عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے پر توجہ دیں-دو سال کے دوران ادارہ جاتی اصلاحات کی جائیں جن میں پہلے ہی غیر معمولی تاخیر ہو چکی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ادارہ جاتی اصلاحات پر متفق ہیں۔ سیاسی لیڈروں کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ کوئی ایک جماعت پاکستان کے مسائل حل نہیں کر سکتی-یہ ادارہ جاتی اصلاحات پولیس فوج بیوروکریسی عدلیہ نیب الیکشن کمیشن اور سیاسی و معاشی شعبوں میں کی جائیں تاکہ ریاست کے تمام ادارے شعبے اور محکمے فعال اور متحرک ہو سکیں اور عوام کے مسائل حل کر سکیں- بلدیاتی انتخابات کرا کے مالی سیاسی اور انتظامی طور پر با اختیار مقامی حکومتیں قائم کی جائیں اور صوبوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے - انہوں نے لکھا ہے کہ کسی بھی ملک میں کوئی ایک سیاسی جماعت پوری ریاست کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی مقتدر ادارہ عوامی رائے کو ہمیشہ کے لیے دبا سکتا ہے-محاذ آرائی کے نتائج ہم بھگت چکے ہیں اور قومی مفاہمت ہی ایک واحد آپشن ہے جس سے ہم اپنے تنازعات حاصل کر سکتے ہیں اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے ہیں-کیونکہ جب تک پاکستان میں امن سکون نہیں ہوگا، حالات سازگار نہیں ہوں گے تو پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات مخدوش ہی رہیں گے-جنرل لودھی کے مطابق ادارہ جاتی اصلاحات پر کافی کام ہو چکا ہے جن پر صرف عمل درامد کرنے کی ضرورت ہے جو قومی مفاہمت، اتفاق رائے اور قومی یک جہتی کے بغیر ممکن نہیں ہے-
پاکستان جاگو تحریک جو بنیادی طور پر بیداری اور شعور کے ساتھ نظام کی تبدیلی کی تحریک ہے۔ وہ دو سال کی قومی حکومت اور ادارہ جاتی اصلاحات پر زور دیتی آرہی ہے- سٹیٹس کو پر مبنی 76 سالہ پرانا نظام ناکارہ اور فرسودہ ہوچکا ہے- اس عوام دشمن استحصالی نظام کو تبدیل کیے بغیر پاکستان میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا-
 عمران خان کے دور حکومت میں ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ٹاسک فورس نے ادارہ جاتی اصلاحات کے بارے میں سنجیدہ کام کیا- ادارہ جاتی اصلاحات کے پیکج کی وفاقی کابینہ نے منظوری بھی دے دی مگر چونکہ تحریک انصاف کے پاس پارلیمانی اکثریت نہیں تھی اس لیے وہ ان اصلاحات پر عمل درامد نہ کرا سکے-انتہائی افسوس کی بات ہے کہ عمران خان ادارہ جاتی اصلاحات کی بات ہی نہیں کرتے جو اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور نمبر ون مسئلہ ہے- پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی محب وطن درد مند پاکستانی نے مثبت تبدیلی اور قومی مفاہمت کی بات کی تو ”سٹیٹس کو“ کے حامی اور سہولت کار اس کی ”ٹرولنگ“ کرنے لگے- 
جنرل لودھی کا فارمولا ایک قومی اور عوامی فارمولا ہے جس کے امکانات روشن ہیں لہذا تمام پاکستان اور عوام دوست سٹیک ہولڈرز کا یہ قومی فریضہ ہے کہ وہ اس فارمولے کی تائید اور حمایت کریں- اگر وہ اس فارمولے سے متفق نہیں تو تنقید برائے تنقید کی بجائے متبادل فارمولہ پیش کریں-اگر ہم نے بدقسمتی سے قومی مفاہمت کا یہ سنہری اور تاریخی موقع کھو دیا تو مایوسی اور غصے میں مبتلا نوجوان خانہ جنگی کی ایسی سنگین صورتحال پیدا کر سکتے ہیں جس کا مقابلہ کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی- پاکستان دشمن غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں اشتعال غصہ مایوسی اور بے حسی پیدا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں-حب الوطنی اور دردمندی کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے- پاکستان اور عوام کے لیے دو سال وقف کر دئیے جائیں اور تمام سٹیک ہولڈرز اپنی اپنی اناو¿ں سے باہر نکل کر پاکستان اور عوام کے اجتماعی مفاد پر توجہ دیں - ادارہ جاتی اصلاحات پر عملدرآمد کے بعد مڈ ٹرم انتخابات کرا دیئے جائیں -
میر تقی میر نے درست کہا تھا-
نہ دردمندی سے یہ راہ تم چلے ورنہ
قدم قدم پہ تھی جائے نالہ و فریاد

ای پیپر دی نیشن