حکومت نے مشروبات پر 20 فیصد وفاقی ایکسائز ڈیوٹی عائد کی ہے جس میں حکومت نے پیکیجڈ فروٹ جوسز کو بھی شامل کرلیا ہے تاکہ بجٹ 2023ء-2024ء کے اہداف کو حاصل کیا جاسکے اور بجٹ خسارے کو کم کیا جاسکے مگر اس عائد شدہ ڈیوٹی سے قومی خزانے کو فائدہ ہونے کے بجائے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اسکی وجہ یہ کہ معیاری اور قابل بھروسہ جوسز کے بجائے لوگ سستے اور غیر معیاری جوسز استعمال کرینگے جو غیر رجسٹرڈ کمپنیز فروخت کرتی ہیں۔ اس ڈیوٹی سے ایسے ہی ٹیکس ناہندگان و ٹیکس چور طبقے کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ یہ ڈیوٹی بلاواسطہ زرعی و دیہی معیشت کسان و پھلوں کے کاشتکاروں کی آمدنی اور کاروبار کو بھی نقصان پہنچائے گی جو اس صنعت سے وابستہ ہیں۔
جون 2023ءمیں قومی بجٹ میں اس ڈیوٹی کے عائد ہونے کے بعد پیکیجڈ جوس کی صنعت کی پیداوار چالیس فیصد نیچے گرگئی ہے جس نے عام لوگوں کو معیاری جوسز کے حصول سے محروم کردیا ہے۔ خالص پھلوں سے تیار کردہ جوسز کی صنعت کا سالانہ منافع اربوں روپے تھا جس میں پاکستانی ارب ہا روپے کی سرمایہ کاری تھی اور اس صنعت سے ایک لاکھ لوگوں کا روزگار منسلک ہے۔
ڈیوٹی کے عائد ہونے کے بعد کاروبار تو جو سکڑنا تھا وہ تو سکڑا مگر اس سے اس صنعت کے اندر بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا کیونکہ صنعت پوری طرح سے پیداوار کرنے کے قابل ہی نہیں رہی جس کا تخمینہ لگایا گیا تھا اور اسی وجہ سے سال 2023-24ءمیں کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی اور نا ہی سال 2024-25ءکی کوئی منصوبہ بندی ہوئی نئی سرمایہ کاری کے لیے۔ اس ڈیوٹی کے عائد ہونے کے باعث ملازمین کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے اور بالخصوص روزانہ اجرت پر کام کرنے والے فارغ ہوگئے۔ لامحالہ اس کا اثر پھلوں کے فراہم کرنے والے کاشتکاروں اور پھلوں کے تاجروں پر بھی یوں پڑا کہ ان سے خام مال کی خریداری بھی کم ہوگئی۔
اس تمام اقدام سے ان غیر روایتی کمپنیوں کی چاندی ہوگئی جو ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں اور انکے سستے مگر غیر معیاری جوسز لوگوں میں عام ہوگئے جن کی اشیاءمیں معیار کا فقدان ہے اور مضر صحت بھی ہیں۔ ٹیکس نیٹ سے باہر یہ غیر دستاویزی صنعت بھاری منافع کما رہی ہے جسکی وجہ یہی 20 فیصد ڈیوٹی ہے جو معیاری اورمستند صنعت پر عائد کی گئی ہے۔ یہ محکمہ خوارک و صحت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ منافع اور ٹیکس چوری تو رہی ایک طرف۔ یہ غیر رجسٹرڈ صنعتیں غیر معیاری جوسز کی فروخت سے لوگوں کی صحت سے بھی کھیل رہی ہیں۔ پھلوں کا رس و جوسز دراصل اچھی غذا میں ہی شامل ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ فروٹ جوسز میں پھلوں کے قدرتی اجزاءشامل ہوتے ہیں جوکہ اچھی صحت و نشونما کے ضامن ہوتے ہیں۔ نیز ان جوسز میں اہم وٹامن و نمکیات ہوتے ہیں جو تقریبا تمام عمر کے لوگوں کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ پیکج جوسز چو نکہ مختلف ذائقوں کے انتخاب کے ساتھ آسانی سے دستیاب ہیں اور فوری اور آسانی سے استعمال ہو جانے کی وجہ سے عوام میں زیادہ مقبول ہیں۔پھلوں کے جوسز کی طبی افادیت بھی ہے کہ اسپتال میں مریضوں کو دیے جاتے ہیں۔ بالخصوص ان متاثرین کو جو گرمی یا لو لگنے سے ڈی ہائیڈریشن سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ جوسز متاثرین کی فوری شفایابی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اگر حکومت چاہتی ہے کہ صنعتیں فروغ پائیں تو اس ڈیوٹی کو مکمل ختم نہیں کرسکتیں تو کم ازکم اسے تھوڑا کم کردے تاکہ ریونیو حاصل کیا جاسکے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے غیرقانونی کمپنیز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور ریگولیٹ کیا جائے کیونکہ ایسی تمام کمپنیز غیر معیاری اجزا کی فروخت میں ملوث ہیں اور حفظان صحت کے اصولوں سے قطعی عاری ہیں۔ ایک صورت اس مسئلے کے حل کی یہ بھی ہے کہ حکومت اور رجسٹرڈ فروٹ جوسز کی صنعت سے وابستہ افراد کی ایک ٹاسک فورس بنا دی جائے جو ایسی غیر رجسٹرڈ کمپنیز اور انکی اشیاءپر نظر رکھ سکے۔
کسان اور پھلوں کے کاشتکار بھی اس ایکسائز ڈیوٹی سے متاثر ہوئے ہیں کیونکہ جوسز کی صنعت تقریبا 100000 ٹن پھل کسانوں اور پھلوں کے کاشتکاروں سے خرید رہی تھی جو کہ اب اس ڈیوٹی کے بعد ممکن نہیں اور دیہی معیشت بھی اس اقدام سے متاثر ہوئی ہے۔ پھل جلد خراب ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے کاشتکار و تاجر ان کو کم قیمتوں پر بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ فروٹ جوسز کی صنعت دراصل دیہی معیشت کو سہارا دینے کے لیے انکے پھلوں کی فصل کو خرید کر ضائع ہونے سے بچاتی ہے تاکہ دیہی زرعی معیشت تباہ نہ ہو اور کسان و کاشتکار بھی خوشحال رہیں۔