میں رب نال د’کھرے پھولدا جے بندہ ہوندا۔۔۔!!! 

 آواز خلق   فاطمہ ردا غوری
ایک عرصہ ہوا ہمیں دو زندگیاں گزارتے ہوئے دوغلاپن، دوہرا معیار، دو کشتیوں کے سوار۔
جیسا کہ جس ملک کو قربانیاں دے کر” آزادی“ کے نام پرحاصل کیا آج اسی ملک میں” قید“ ہیں یہاںترقی و خوشحالی کے سبز باغ دکھا کر ہم سے ووٹ اور سپورٹ تو لے لئے جاتے ہےں لیکن بعد ازاں ہمیں تنزلی اور تباہی کی ایسی پٹری پر تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے جس کی منزل پچھتاوہ اور مایوسی ہے !!!
یہاں یکم مئی کو یوم مزدور کے نام پر پورا ملک آرام و سکون سے چھٹی منا رہا ہوتا ہے اور مزدور یکم مئی کو بھی اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے محنت و مشقت میں سرکرداں رہتا ہے یہاں یوم کشمیر منایا جاتا ہے کشمیرکے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے، کشمیر کو شہ رگ قرار دیا جاتا ہے لیکن باقی دنوں میں اسی شہ رگ کو ”ہیوی ڈوز“ دے کرایسا س±ن کر دیا جاتا ہے کہ باقی پورا سال اس شہ رگ کی موجودگی جسم میں محسوس تک نہیں ہوتی! یہاں قائداعظم ڈے منایا جاتا ہے لیکن بانی پاکستان کے اصولوں و ضوابط کو ایک عرصہ ہوا پس پشت ڈالا جا چکا یہاں اقبال ڈے منایا جاتا ہے لیکن شاعر مشرق اقبال نے آزاد مملکت کا جو خواب دیکھا تھا وہ آج ایک آزاد ملک ہونے کے باوجود چکنا چور ہو چکا ہے چند دن تک ۹ مئی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا لیکن سیاہ افعال کے خاتمہ کے لئے کوئی پیش رفت نہیں کی جائے گی 
 نفسیات کی کتابوں میں ایک مرض کا تذکرہ ملتا ہے جس کا نام ” سپلٹ پرسنیلٹی “ہے اس مرض میں مبتلا انسان ایک ہی وقت میں دو زندگیاں گزار رہا ہوتا ہے پہلے ایک کردار خود پر طاری کرتا ہے اور جب اس سے تسکین نہیں پاتا تو دوسرے کردار میں ڈھل جاتا ہے آج کے دور میں محسوس ہوتا ہے کہ اکثریت اپنے اپنے مفاد کی خاطر اسی بیماری ”سپلٹ پرسنیلٹی “ کا شکار ہے ایسی ہی ایک اور بیماری” خبط عظمت“ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے ایسا انسان سمجھتا ہے کہ وہ اس کرہ ارض کی عظیم ترین ہستی ہے جس کے پاس یہاں کے ہر مسئلے کا حل ہے اور اس کے بغیر ہر سمت تباہی پھیل جائے گی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے نام نہاد رہنماءاور مقتدر ہستیاں شاید اسی خبط عظمت کا شکار ہیں !!!
جس ملک کا نظام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں شفاف طریقے سے چلانے کی ٹھانی گئی تھی وہیں پر آج تمام ادارے کرپشن زدہ ہیں یہاں یہ سمجھ لینا ازحد ضروری ہے کہ کرپشن آخر کہتے کس کو ہیں؟تو جناب کسی بھی معاملہ میں اپنے اختیار سے تجاوز کرپشن کہلاتا ہے اگر آپ سنجیدگی سے غور کریں تو محسوس کریں گے کہ ہماری مقتدر ہستیوں سے لیکر نچلے طبقے تک اکثریت کہیں نہ کہیں اپنی حد سے تجاوز کرنے میں مصروف عمل ہے اور اپنے اختیار سے بڑھ کر چاہتی ہے وطن عزیز کے کسی بھی نامی گرامی محکمے کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں آپ کو چار چاند دکھانے کے لئے کافی ہیں نظام تعلیم کی فرسودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یہاں پڑھا لکھا ڈگری ہولڈر نوجوان بیروزگار ہے اور ساٹھ سالہ پر تعیش زندگی گزار چکے طبقے کو غیر متعلقہ شعبوں میں سپیشل پے سکیل پر نوازا جا رہا ہے سکول کالجز اور یونیورسٹیز میں ویٹنگ فیکلٹی کے اعلانات کر کے چالان فارم فیس کے نام پر لاکھوں روپے اینٹھ لئے جاتے ہیں اور نوکری پر پہلے سے طے شدہ افراد نوکری پر رکھ لیا جاتا ہے ہماری گناہ گار آنکھوں نے دیکھا کہ ایک نامی گرامی یونیورسٹی میں جس سیٹ کے نام پر لاکھوں روپے وصولیاں کی گئیں اس سیٹ پر پہلے سے ہی” سلیکٹڈ“شخصیت کام کر رہی تھی اور وزٹنگ فیکلٹی کے اعلانات کے بعد بھی یہ طے شدہ تھا کہ وہی شخصیت کام کرتی رہے گی فقط کاغذی کاروائی اور خانہ پوری کے لئے مجبور اور بیروزگار نوجوانوں کو انٹری ٹیسٹ ،انٹرویو کی مد میں پیسوں اور وقت کے ضیاع اور سفر کی خواری سے گزارا جا تا ہے جبکہ ” سلیکٹڈ“ انسان خاموشی سے تماشہ دیکھتا اور کام کرتا رہتا ہے !!! قصہ مختصر جس ملک میں مستقبل کے علمبرداروں کے لئے روزگار میسر نہیں وہاں سے کوئی اور توقع چہ معنی دارد ؟ اب چلتے ہیں محکمہ صحت کے دوہرے معیار کی جانب گذشتہ دنوں ایک سرکاری ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحبہ (چونکہ ا س وقت اپنے پرائیویٹ کلینک میں نہیں تھیں کہ بنا وقت ضائع کئے ہزاروں روپے فیس کے نام پر لے لیتیں )اس وقت سرکاری ہسپتال میں اپنی ڈیوٹی نبھا رہی تھیں سو کچھ دیر کے لئے آرام فرما رہی تھیں اور باہر مریض قطار در قطار موجود تھے کچھ درد سے کراہ رہے تھے اور کچھ زبردستی کمرے میں جانے کے لئے کوشاںاسی اثناءمیں دروازہ کھلا اور” پڑھی لکھی ڈگری ہولڈر“ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کی گرجدار آواز آئی وہ فرما رہی تھیں کہ کمرے کے دروازے کے سامنے سے یہ ”کچرا“ہٹایا جائے نہیں تو وہ کسی کو بھی چیک نہیں کریں گی اس آواز کا آنا ہی تھا کہ ان مریضوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جانے لگا ہم نے یہ صورتحال دیکھی تو سمجھ گئے کہ یہاں سے واپسی ہی بھلی لیکن پھر اندر کے متجسس انسان نے روکا کہ رک جاﺅ آج انسانیت کی موت دیکھ کر ہی چلیں گے سو دل پر پتھر رکھ کر وہیں بیٹھ گئے سوچا کہ اپنے اچھے برے وقت کے ساتھی کا بندوبست کیا جائے سو ایک لیڈی گارڈ کو اشارتا بلایا تاکہ ہمیشگی ساتھی” چائے“ منگوا لی جائے ہم نے ادب آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لیڈی گارڈ کو اشارے بلایا تھا تاکہ آواز دینے سے ہسپتال میں کوئی ڈسٹرب نہ ہو لیکن وہ نہ جانے کیا سمجھ بیٹھی اور آہستگی سے نہایت مشکوک انداز میں ہمارے پاس آ کھڑی ہوئی ہم نے چائے کے لئے کچھ پیسے تھمائے ابھی مدعا بیان کرنے ہی والے تھے کہ وہ دھیرے سے نہایت راز داری کے ساتھ ہمارا ہاتھ دباتے ہوئے بنا کچھ کہے سنے چلی گئی مشکل سے دس منٹ ہی گزرے ہونگے کہ وہ دوبارہ آئی اور ایک پرچی تھما کر کہنے لگی کہ میڈیم آ جائیں آپ کی باری آ گئی ہے ہم حیرت زدہ رہ گئے ایک نگاہ اس قطار پر ڈالی جو کئی گھنٹوں سے تکلیف میں مبتلا تھی اور ایک نگاہ اپنے ہاتھ میں تھامی پرچی پر ڈالی دل کٹ سا گیا خاموشی سے باہر نکل آئے وہاں سے نکلتے ہوئے دیوار پر کنداں جلی حروف پر نگاہ جم سی گئی " ہم اور ہمارا سٹاف کسی بھی قسم کی رشوت پر سخت ایکشن لیں گے لہذا پنی باری کا انتظار کریں اور رشوت دیکر خود کو شرمندہ مت کریں" 
ایک وقت تھا کہ لکھے ہوئے کی بہت اہمیت ہوا کرتی تھی جو کنداں ہو جایا کرتا تھا اس پر عمل پتھر پر لکیر کے مترادف سمجھا جاتا تھا لیکن خیر وہ” ایک وقت تھا ناں “یہ تھا نظام صحت کا دوہرا معیار!!! دوہرے معیار کی مزید کئی مثالیں ذہنوں دل کو مضطرب کئے ہوئے ہیں لیکن اگر سب کچھ لکھنے بیٹھیں تو تحریر کئی اقساط پر مشتمل ہو جائے گی سو باقی تفصیلات پھر کبھی سہی 
        "برای ذمّ بشر سرگذشتِ من کافیست"
    ترجمہ : انسان کی مذمت کے لئے میری یہ کہانی کافی ہے 
آخر میں ہمارے دوہرے معیارات سے میل کھاتے افضل ساحر صاحب کے چند دلدوز اشعار لکھ کر اجازت چاہوں گی 
     اسی چوٹھو چوٹھی کھیڈ کے اک سچ بنایا 
     فیر اوس نوں دَھرمی لہر دا اک تڑکا لایا 
     اسی پاک پلیتے پانیاں وچ رِجھدے جائےے
     یاں ہسےے گھو’ری وَٹ کے یاں کھِجدے جائےے
     کوئی نیزے اتے سچ وی ایتھے نیئں پچنا 
     بھاویں عیسی مڑ کے آ جاوے ایتھے نیئں بچنا 
     اسیں اکھاں مَل مَل ویکھئے کیہ کھیڈاں ہوئیاں 
     کِتے شیر ورگے سورمے اَج بھیڈاں ہوئیاں
       سانوں سَجا ہتھ وکھا کے ماری گئی کھبی 
       اسیں جنت وَل نوں نٹھ پئے تے دوزخ لبھی
       اسیں کھڑے کھلوتے کَنب گئے پرچھاویں بدلے 
       ساڈے اپنیاں پٹواریاں ساڈے ناویں بدلے !!!
       کیہ دَساں ساہ دی منڈےے کِنج مندا ہوندا
       میں رب نال د’کھرے پھولدا جے بندہ ہوندا ۔۔۔ 

ای پیپر دی نیشن