تحریر :کرن عزیز کشمیری
خطے کے دو دہشت گرد ملک تعارف کے محتاج نہیں۔ بھارت نے طویل عرصے سے کشمیریوں کا خون بہانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اسرائیل نے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ امریکہ کے مطابق عالمی دہشت گردی پر بھارت سے پوچھ پوچھ جاری ہے۔ جبکہ امریکہ نے بھارتی دہشت گردوں کے حوالے سے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نہ ہی اس حوالے سے کبھی کوئی اہم کردار ادا کیا ہے۔امریکہ نے کہا ہے کہ علاقائی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے میں پاکستان ایسا کردار ادا کرے اور یہ پاک امریکہ کا مشترکہ مفاد ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ خطے کے امن کو اصل خطرات بھارت کی دہشت گردی سے لاحق ہے۔ جبکہ اسرائیل کی حمایت کرنا بھی امریکہ کی طرف سے خطے کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان پون صدی سے بھارتی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے۔جبکہ کشمیریوں کے حوصلے بھی بلند ہیں۔اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ازادی کے جذبے سے سرشار بھارتی دہشت گردی اور فسطائیت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔مقبوضہ جموں کشمیر کو بھارت زبردستی اپنا حصہ کہہ دینے سے حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے۔واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے جواب میں کہا گیا جس کے مطابق سکھ رہنما کی قتل کا علم بھارتی وزیراعظم اور خفیہ ایجنسیوں کو تھا۔اس معاملے پر تحقیقات جاری ہے۔امریکہ کو چاہیے کہ نہ صرف سکھ رہنما کے قتل بلکہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے بھی اپنا اہم کردار ادا کرے۔ بھارتی فسطائیت من مانی اور دہشت گردی کی آنچ اب امریکہ اور دیگر ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے۔ بھارت امریکہ کا اتحادی ملک ہے۔تاہم اب اگر امریکہ نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا تو اپنے اس اتحادی کو کھو سکتا ہے۔ اس ضمن میں بھارت کے خلاف کاروائی نہ کر کے بھی امریکہ مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ بھارتی دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑنے اور حقائق جاننے کے لیے کسی بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ بھارت کے خلاف کوئی بھی قدم نہ اٹھا کر امریکہ کے اپنے ٹیکس دہندگان کو جواب دینا مشکل ہو جائے گا۔ جبکہ اگر بھارت کو اسی طرح ڈیل دی گئی تو امریکہ خطے کے امن و استحکام کو براہ راست ذمہ دار ہوگا۔ زبانی جمع خرچ اور عملی کردار ادا کرنے میں فرق ہے۔ اسرائیل کی سرپرستی کرنے والا یہ ملک انسانیت کے قتل فلسطینیوں کے خون بہنے کا بھی براہ راست ذمہ دار ہیں۔ خطے میں دو دہشت گرد ملکوں کی زیادتیوں کا راج ہے اور مسلمان ممالک خاموش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک دہشت گردی کے خلاف خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا جائے گا۔ اسلام دشمنی میں امریکہ بھارت اور اسرائیل ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ جبکہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں۔ ہر ملک اپنے مفادات کے تحفظ کو ترجیح دیتا ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل مظالم سے درد انسانیت رکھنے والے بھی تڑپ اٹھے ہیں۔ مغرب کی عوام بھی سراپااحتجاج ہے۔اور اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر نکل ائی ہے۔مغرب بھارت کو ایک بڑی اکانمی کے طور پر دیکھتا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بھارت امریکہ کے لیے کرائے کا قاتل ہے۔ دیکھا جائے تو امریکہ اور بھارت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔اپنے شہریوں کو دھوکہ دینے کے لیے امریکہ بیانات دے رہا ہے اور ان بیانات کا انجام یہی ہوگا کہ بھارت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ معاملے کو پس پشت ڈال دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے امریکہ نے اسلام دشمنی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رہی اسرائیل اور بھارت امریکہ کی آشرباد سے مسلمانوں پر طویل عرصے سے ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہیں۔دہشت گردی کے بیچ دراصل خطے میں امریکہ ہی نے بوئے ہیں اور اس امر کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ خطے کو اصل خطرات انہی ممالک کے کردار اور پالیسی سے لاحق ہیں۔ جب تک عالمی برادری اسرائیل اور بھارت کے اس دہشتگردی کے پودے کو مل کر اکھاڑ نہیں پھینک دیتی۔ انسانیت کا خون بہتا رہے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ فلسطینیوں کے قتل پر اسلامی تنظیمیں کیا خود بھی شرمندہ ہیں؟ کوئی بھی قابل ذکر کردار ادا نہ کرنے پر دنیا کے سامنے سوالیہ نشان ہیں۔ اسرائیل کے مظالم کے خلاف مسلم ممالک دبی دبی آوازیں ہی بطور احتجاج نکال دی جو کسی چیخ میں تبدیل ہو کر فلسطینیوں کے دل کو اطمینان و سکون پہنچا سکے۔ واضح رہے کہ بھارت نے ہتھیاروں کی خریداری میں دلچسپی دکھا کر اس امر کو سچ ثابت کیا ہے کہ بھارتی جارحیت پر دنیا کی خاموشی افسوسناک ہے امریکہ کو چاہیے اسرائیل کی حمایت ترک کر دے اور فلسطینیوں کا خون بہانے سے اسرائیل کو روکے۔اس سلسلے میں اسلامی تنظیمیں اور عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔