محترمہ وزیر اعلیٰ کی توجہ کے متقاضی اقدامات 

تحریر :راشد یعقوب
خبر ہے کہ پتنگ بازوں کو دہشت گرد قرار دینے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور اس حوالے سے محکمے بڑے سرگرم عمل ہیں کیونکہ سال دو سال بعد ڈور پھرنے سے ہلاکت کا واقعہ سامنے آجاتا ہے تاہم وہ ذمہ داران بری الذمہ ہیں جنہوں موٹرسائیکل سواروں کو پتنگ باز ی کی خلاف ورزی کی بھینٹ چڑھنے سے روکنے کے لیے سیفٹی راڈ لازمی قرار دینے جیسا ضروری قدم اٹھانے کی کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ یہاں ذرا کچھ میڈیا رپورٹس پر نظر دوڑاتے ہیں جن کے مطابق سال 2024کے پہلے چار ماہ کے دوران لاہور میں چوریوں، ڈکیتیوں، راہزنیوں، اغوا برائے تاوان وغیرہ سمیت 53204وارداتیں ہوئیں۔ 2023کے پہلے چار ماہ کے دوران یہ اعداد و شمار 60553کے ساتھ زیادہ ہوشربا تھے۔ اوسطا ہر روز دو سو افراد کے ساتھ وارداتیں ہورہی ہیں اور وہ واقعات الگ ہیں جو کسی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ چور ، ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں لیکن پھر بھی دہشت گرد پتنگ بازوں کو قرار دینے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ ایک سابق اعلی عہدیدار نے ایک فورم پر بتایا تھا کہ پچھلے کچھ ماہ کے دوران کراچی میں دوران ڈکیتی کئی درجن افراد کو قتل کردیا گیا جن میں سے اکثر کے مجرم تاحال نہیں پکڑے جاسکے لیکن دہشت گرد پھر بھی پتنگ بازوں کو قرار دیاجائے گا۔ ڈیرہ اسمعیل خان میں کسٹمز انٹیلی جنس کی گاڑی پر حملہ کیا جاتا ہے جس میں سات اہلکار شہید ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی دہشت گرد پتنگ باز ہیں۔ بلوچستان میں بس روکی جاتی ہے، مسافروں کے شناختی کارڈز چیک کیے جاتے ہیں اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نیچے اتار کر بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے لیکن دہشت گرد پتنگ باز ہیں۔ پاکستان میں گندم کاشت کرنے والا زمیندار ذلیل ہوکر رہ گیا ہے جبکہ تین سو ارب روپے کی گھٹیا معیار کی گندم امپورٹ کرنے کا سکینڈل سامنے آیا ہے مگر دہشت گرد پتنگ باز ہیں۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں وہ لوگ جو پتنگ بازی کو دہشت گردی کے زمرے میںلانے کے لیے قانون سازی کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے دوست سینئر صحافی کا بھانجا ون وہیلرز سے بچتے ہوئے ٹریکٹر ٹرالی سے ٹکرا کر جان کی بازی ہار گیا۔ آئے روز ون وہیلرز خود بھی مرتے ہیں اور لوگوں کو بھی ایکسیڈنٹ میں مارتے ہیں لیکن انہیں دہشت گرد قرار دینے کی بات کہیں نہیں ہوئی۔ چوروں، ڈاکو?ں، اغوا برائے تاوان کرنے، چھوٹے چھوٹے بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردینے اور دوران ڈکیتی خواتین سے زیادتی کرنے والے مکروہ عناصر کو تو دہشت گرد قرار دینے کی بات کبھی نہیں سنی لیکن پتنگ بازوں کے پیچھے سب ہاتھ دھوکر پڑے ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ پتنگ کی ڈور پھرنے سے ہلاکتوں کے واقعات میں سے کئی مشکوک بھی ہیں۔ سمن آباد لاہور کے علاقے میں ایک سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی جس میں دو موٹرسائیکل سوار آرہے تھے کہ پیچھے بیٹھے شخص نے اگلے شخص کے گلے پر اچانک چھری چلادی اور اتر کر بھاگ گیا۔ فوٹیج کی مدد سے اسے پکڑا گیا تو اس نے انکشاف کیا کہ لڑکی کا چکر تھا اور اس نے دوسرے شخص کے گلے پر چھری اس لیے چلائی کے یہ مدعا ڈور پر ڈال دیا جائے۔ پتنگ بازوں کو دہشت گرد قرار دینے سے قبل موٹرسائیکل کی سواری کو غیرقانونی اور ایک بہت بڑا جرم قرار دیا جائے کہ پچھلے تین چار ماہ کے دوران لاہور میں موٹرسائیکل حادثات میں 58افراد جاں بحق ہوئے۔ پاکستان میں 2005سے پتنگ بازی پر پابندی عائد ہے۔ اس کے باوجود کئی لوگ ڈور سے جاں بحق ہوئے تو کیا اس کے ذمہ دار پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے پتنگ باز ہی ہیں؟ کیا وہ متعلقہ ادارے ذمہ دار نہیں جنہوں نے موٹرسائیکل سواروں کے لیے اسی طرح حفاظتی راڈ لگوانا لازمی قرار نہیں دیا جیسا کہ ہیلمٹ پہننے کے قانون ہے۔ کیا ہیلمٹ پہننے کی پابندی پر عمل درآمد کے لیے اس بات کا انتظار کیا جاتا ہے کہ کوئی موٹرسائیکل سوار گرے، اس کا سر زمین سے ٹکرائے اور اس کے بعد ہیلمٹ کے قانون پر عمل درآمد کرایا جائے۔ اگر 2005میںہی باقاعدہ یہ قانون بنا دیا جاتا کہ موٹرسائیکل پر سیفٹی راڈ لازمی لگوایا جائے گا اور موٹرسائیکل ساز اداروں کو یہ ہدایات جاری کردی جاتیں کہ وہ ضروری پارٹ کے طور پر سیفٹی راڈ موٹرسائیکل کا لازمی جزو بنائیں تو 2005کے بعد سے آج تک ایک بھی انسانی جان پتنگ بازی کی وجہ سے ضائع نہ ہوتی لیکن اس بارے میں سوچنے کی زحمت کرے کون۔ کچھ عرصہ قبل فیصل آباد میں ہمارا بھائی، ہمارا بیٹا سڑک پر لٹکی ہوئی ڈور پھرنے سے جان کی بازی ہارگیا۔ نہ جانے وہ ڈور کہاں سے آئی تھی اور کب سے لٹک رہی تھی۔ اگر چند سو روپے کا ایک سیفٹی راڈ بائیک پر لگا ہوتا تو ہمارا یہ بچہ جان کی بازی نہ ہارتا۔ ہماری پنجاب پولیس جرائم کی روک تھام کے لیے ہرممکن کوششیں کررہی ہے۔ لاہور کی دو کروڑ سے زائد آبادی میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے پنجاب پولیس اپنے محدود وسائل کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ خود پولیس کے جوانوں کو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ جیسے چیلنجز کا سامناہے اور پچھلے دنوں ٹارگٹ کلنگ میں ہماری پولیس کے کئی جوان شہید ہوئے۔ ان بڑے بڑے چیلنجز کی موجودگی میں محکمہ پولیس کو ایک اضافی ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ پتنگ بازوں کو بھی تلاش کریں اور پکڑیں۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ آپ اتنے سارے وسائل بروئے کار لانے کے بجائے موٹرسائیکل پر ایک سیفٹی راڈ کیوں نہیں لگوادیتے کہ پتنگ بازی کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی وجہ سے کوئی اور قیمتی جان ضائع نہ ہونے پائے۔ دوکروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں آپ کیسے روک لیں گے پتنگ بازی۔ اگر کوئی رات کے اندھیرے میں پتنگ اڑا لیتا ہے تو کون پکڑ پائے گا اسے۔ اور پابندی چاہے جتنی بھی سخت ہو پتنگ تو کوئی نہ کوئی اڑا ہی لے گا کیونکہ بجلی پٹرول گیس کی ہوشربا قیمتوں، امن و امان کی صورتحال، سیاسی بدامنی اور دیگر بہت سے مسائل کی موجودگی میں لوگوں کو انٹرٹینمنٹ چاہیے اور بہت سے لوگوں کی انٹرٹینمنٹ ہوا میں لہراتی پتنگ ہے۔ خدا کا واسطہ ہے حقائق کو مدنظر رکھیں اور فیصلہ ساز تمام تر وسائل اس معاملے میں نہ جھونکیں جو ایک چھوٹی سی کوشش سے حل کیا جاسکتا ہے۔ وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نوازبلاشبہ بہت فعال کردار ادا کررہی ہیں اور تمام شعبہ ہائے زندگی بالخصوص عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں پوری طرح سرگرم عمل نظر آرہی ہیں۔ فیصل آباد سانحہ میں نوجوان جاں بحق ہونے کے بعد انہوں نے فوری طور پر موٹرسائیکل پر سیفٹی راڈ لگانے کی مہم شروع کی تھی جو بہت خوش آئند بات تھی کہ پتنگ بازی کے قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے قیمتی جان ضائع نہ ہو لیکن حسب معمول یہ مہم افسر شاہی کی بھینٹ چڑھ جانے کی خدشہ ہے اور یہ بھی اندیشہ ہے کہ کوئی بچہ اگر لاہور کی ثقافت اور اپنے شوق سے مجبور ہوکر چھوٹی موٹی گڈی اڑا لیتا ہے تو اسے دہشت گرد قرار دیکر اس کا مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک کردیا جائے گا۔ وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے پر خصوصی کردار ادا کریں کیونکہ یہ مسئلہ پتنگ بازوں کو سخت سزا یا پھر دہشت گرد قرار دیے بغیر باآسانی حل ہوسکتا ہے۔ موٹرسائیکل پر چندسو روپے کا ایک راڈ قیمتی جانوں ، وسائل کا ضیاع روکے گا اور ہمارے پولیس کے جوانوں پر بلاوجہ کی ذمہ داری اور دبا? بھی کم کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن