منگل کی صبح اٹھا تو فون پر برادر مہربان سہیل وڑائچ کی جانب سے بھیجے پیغام کی اطلاع آئی ہوئی تھی۔ ہماری سیاست کے متحرک کرداروں اور بالخصوص برطانوی دور سے انتخابی سیاست میں سرگرم خاندانوں کی بزرگ وجواں نسلوں پر وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ منگل کی صبح چھپے میرے کالم میں اوجڑی کیمپ میں ہوئے دھماکے کے اسباب جاننے کے لئے جونیجو حکومت کے دوران بنائی ’’تحقیقاتی کمیٹی‘‘ کا ذکر ہوا تھا۔ اس کے اراکین کا ذکر کرتے ہوئے میں ان دنوں کے وزیر مملکت برائے دفاع کا نام بھول گیا۔ فقط اتنا یاد رہا کہ وہ کوئی ’’رانا صاحب‘‘ تھے۔ شاید یہ لکھ دینا کافی تھا۔ انسان مگر اپنی کمزوریوں کے ساتھ زندہ رہنے کو آمادہ نہیں ہوتا۔ یادداشت پر زور آزمائی کرتے ہوئے موصوف کا نام ’’عارف‘‘ تصور کرلیا۔
بھائی سہیل وڑائچ کا پیغام دیکھا تو اولین نگاہ میں دریافت یہ ہوا کہ انہوں نے میرا کالم صبح آٹھ بجے سے پہلے ہی پڑھ لیا تھا۔ اسے پڑھنے کے بعد کرم یہ فرمایا کہ ایک پیغام کے ذریعے میری تصحیح فرمادی۔ یاد دلایا کہ جس وزیر کا ذکر ہوا تھا نام ان کا رانا نعیم تھا۔ وہ ساہیوال کے معروف رانا خاندان کے فرزند ہیں۔ سہیل وڑائچ کی مہربان تصحیح سے دل شاد ہوگیا۔ موصوف بذات خود ایک معروف ومقبول کالم نگار ہیں۔ ’’آزادی صحافت‘‘ کے رواں موسم میں ’’خبر‘‘ بیان کرنے کیلئے استعاروں کے تخلیقی استعمال کے علاوہ ایسا طرز بیان بھی اختیار کررکھا ہے جو سلاطین کے جبر سے محفوظ رہنے کی تمنا میں ایجاد ہوا تھا۔ ’’پکڑ‘‘ سے اکثر پھر بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔
دورِ حاضر کی آپا دھاپی کو نگاہ میں رکھوں تو سحر خیز سہیل وڑائچ کو میرا کالم پڑھتے ہی تصحیح کرنے والا پیغام لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ سوچتے ہوئے بلکہ خوش ہوتے کہ حالیہ تا ریخ پر نگاہ رکھنے والے صحافی اور ذہین قاری رانا نعیم کے بارے میں میری جہالت جان لینے کے بعد یہ طے کرلیں گے کہ نصرت جاوید کی یادداشت اس کا ساتھ چھوڑ رہی ہے۔ ملکی سیاست کی حالیہ تاریخ بھی یاد رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ اس کا کالم پڑھنے کی لہٰذا اذیت کیوں برداشت کی جائے۔ مجھے میرے حال پر چھوڑنے کے بجائے سہیل وڑائچ نے اپنے پیغام کے ذریعے اندھے کی لاٹھی بننے کا فیصلہ کیا۔ شکریہ ادا کرنے کو مناسب الفاظ ہی نہیں مل رہے۔
سہیل وڑائچ کے آئے پیغام نے مگر بہت کچھ سوچنے کو مجبور کردیا ہے۔ صحافت کے شعبے میں داخل ہونے کے پہلے دن سے میں ہمیشہ روانی میں خبریں یا کالم ٹائپ کرتا رہا ہوں۔ بطور رپورٹرنوٹس لینے کی عادت اپنا نہیں پایا۔ جو دیکھتا اور سنتا اسے ذہن میں محفوظ رکھتا اور دفتر پہنچتے ہی بہت تیزی سے ٹائپ کرتے ہوئے خبر یا کالم مکمل کرکے ڈیسک کے حوالے کرکے وہاں سے کھسک جاتا۔ یہ کالم لکھتے ہوئے بھی روانی میں خلل سے جی گھبراتا ہے۔
روانی برقرار رکھنے کے جنون میں لیکن یہ حقیقت بھول رہاہوں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ یادداشت کا برقرار اور توانا رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس سے اگرچہ دورِ حاضر میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ رانا نعیم کا نام یاد نہیں آرہا تھا تو قلم روک کر موبائل فون اٹھالیتا۔ وہاں موجود گوگل کے سرچ انجن کی بدولت مختلف سوالات لکھتے ہوئے رانا نعیم کا نام بآسانی تلاش کیا جاسکتا تھا۔ کسی شعبے میں چند دہائیاں گزارنے کے بعد مگر آپ خود کو اس شعبے کے حوالے سے عقل کل شمار کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ فقط ’’رانا‘‘ لکھ کر مطمئن نہیں ہوتے۔ ذہن پر دبائو بڑھاتے ہوئے ’’عارف‘‘ لکھنے کی حماقت کربیٹھتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کی شفقت کی بدولت سبق اب یہ سیکھا ہے کہ روانی کے دن گئے۔ ’’مضمحل ہوگئے قوی غالب‘’‘ والا معاملہ آن پڑا ہے۔ کالم لکھتے ہوئے خود سے زیادہ قارئین پر رحم کروں۔ یادداشت ساتھ نہ دے تو قلم روک کر موبائل اٹھائوں۔ وہاں سے بھی جواب نہ ملے تو کھلے دل سے لکھ دوں کہ جس کردار کا ذکر ہورہا ہے اس کا نام یاد نہیں رہا۔ عاجزی وانکساری قارئین کو آپ کی خطائیں معاف کرنے کو آمادہ کردیتی ہے۔
عاجزی وانکساری کا ذکر چلا تو یاد آیا کہ رات سونے سے قبل ارادہ یہ باندھا تھا کہ منگل کی صبح اٹھتے ہی امریکی سفیر کی تحریک انصاف کی قیادت سے ملاقات کے بارے میں لکھا جائے گا۔ ’’اندر کی بات‘‘ سے قطعاََ بے خبر ہوں۔ حیراں فقط وہ الفاظ سن کر ہوا جو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نامزد ہوئے عمر ایوب خان نے مذکورہ ملاقات کی ’’وجوہات‘‘ بیان کرتے ہوئے کیمروں کے روبرو ادا کئے۔ ان کا فرمانا تھا کہ ’’وزارت خارجہ‘‘ نے تحریک انصاف کو ایک پیغام بھیج کر مذکورہ ملاقات کیلئے رضا مند کیا۔ میں اگر بطوررپورٹر وہاں موجود ہوتا تو عمر ایوب صاحب سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا کہ و ہ کس ملک کی ’’وزارتِ خارجہ‘‘ کی بات کررہے ہیں۔
1982ء سے اسلام آباد سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ ’’دی مسلم‘‘ کیلئے سفارتی تقریبات کے بارے میں کالم لکھنا شروع کئے تھے۔ بعدازاں کم از کم تین دہائیوں تک خارجہ امور کی بابت خبروں کی کھوج لگانا اور ان کے حوالے سے تبصرہ آرائی میری پیشہ وارانہ ذمہ داری رہی ہے۔ ان طویل برسوں میں ایک بار بھی یہ ’’خبر‘‘ نہیں ملی کہ ہماری وزارت خارجہ نے کسی حکومت مخالف سیاستدان کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر سے ملاقات کرلے۔ اسلام آباد میں امریکی سفیر کی معاونت کیلئے بھاری بھر کم عملہ مامور ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین سے روابط کیلئے امریکی سفارتخانے میں ایک مختص شعبہ بھی ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ جس سیاستدان سے امریکی سفیر ملنے کے خواہش مند ہوں ان سے رابطے کی راہ نکالے اور ملاقات کا جلد از جلد بندوبست کرے۔ وہ یہ فرض نبھانے میں ناکام رہے تو نکما قرار پائے گا۔ امریکی یا اسلام آباد میں تعینات کسی بھی سفیر کو ہماری وزارت خارجہ کی معاونت سے کسی غیر حکومتی سیاستدان سے ملاقات کی ضرورت نہیں۔
عمر ایوب کی جانب سے ’’وزارت خارجہ‘‘ کے ذکر نے مجھے یہ سوچنے کو اکسایا کہ شاید اسلام آباد میں تعینات امریکی سفارتکاروں میں سے کوئی ایک بھی تحریک انصاف کی قیادت کو ان کے سفیر سے ملنے کو رضا مند نہ کرسکا۔ وہ ناکام رہے تو شاید واشنگٹن سے امریکی ’’وزارت خارجہ‘‘ کے کسی سینئر افسر نے تحریک انصاف کی قیادت کو چٹھی لکھی اور طویل غوراور بعدازاں ان دنوں اڈیالہ جیل میں قید قائد کی منظوری کے بعد عمرایوب اور ان کے چند ساتھی امریکی سفیر سے ملنے کو آمادہ ہوگئے۔
یہ لکھنے کے باوجود دل مگر یہ کہانی مان نہیں رہا۔ اپنی مہربان والدہ اور دبنگ والد کی وجہ سے عمر ایوب ذاتی طورپر مجھے بہت عزیز ہیں۔ مجھے گماں ہے کہ انہیں احساس تھا کہ اپریل 2022ء سے امریکہ کو عمران حکومت ہٹانے کا تسلسل سے ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کی پاکستان میں تعینات امریکی سفیر سے ملاقات دوستوں اور دشمنوں کو حیران کرنے کے علاوہ چند مشکل سوالات اٹھانے کو بھی اکسائے گی۔ ممکنہ سوالات سے جند چھڑانے کے لئے ’’وزارت خارجہ‘‘ سے آئی درخواست کا ذکر کرنا پڑا اور یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی کہ کونسے ملک کی ’’وزارت خارجہ‘‘ کا ذکر ہورہا ہے۔ امریکہ یا پاکستان۔
میری "عارف" لکھنے کی حماقت اور وزارتِ خارجہ کا معمّہ۔
May 08, 2024