پنجاب کی یونیورسٹیز میں 2 مہینے تک مستقل وائس چانسلرز تعینات ہو جائیں گے

عیشہ پیرزادہ 
Eishapirzada1@hotmail.com 
چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر شاہد منیر نے پنجاب یونیورسٹی سے کیمیکل انجینئرنگ ایم ایس سی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ دس سال کارپوریٹ سیکٹر میں خدمات انجام دیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل انجینئرنگ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر نوجوانوں کا مستقبل سنوارا۔اور اسی دوران ہی خود بھی اعلیٰ تعلیم کا ذوق برقرار رکھتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ برطانیہ سے انرجی اینڈ ماحولیاتی انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی۔ڈاکٹر شاہد منیر پنجاب ڈویلپمنٹ بورڈ کے ممبر رہے۔ پنجاب میں جتنے بھی تھرمل توانائی کے پروجیکٹس تھے ان پر کام کیا۔ ساہیوال کول پاوور پروجیکٹ ان منصوبوں میں سے ایک ہے، جو شاہد منیر کی بھی کاوشوں کی بدولت ا?ج ملک و قوم کے بہتر حال و مستقبل کیلئے بہترین پلان ثابت ہورہاہے۔ غرض قوم کے اس لائق،ہونہار،بااخلاق اورقابل سپوت ڈاکٹر شاہد منیر کے کارناموں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اگر تمام یہاں بیان کیے جائیں تو شاید یہ صفحہ لکھنے کے لیے بھی کم پڑ جائے۔ اپنے ان ہی تجربات کی بناء￿  پر آج کل یہ پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن میں بطور چیئرمین' اعلی تعلیمی نظام میں بہترین اصطلاحات لانے میں مصروف عمل ہیں،یہ تعلیمی نظام میں بہتری کیلئے کون سے اقدامات اٹھارہے ہیں،اس سلسلے میں نوائے وقت نے قارئین نوائے وقت کی ا?گاہی کیلئے پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر سے خصوصی گفتگو کی، جو ہم اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں۔
نوائے وقت: ا?ج کل ہر طرف مایوسی ہے،نوجوان باہر جارہے ہیں،قارئین نوائے وقت کے ساتھ اپنی کامیابی کا راز شیئر کیجئے۔
پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر: میریوالد محکمہ انہار میں سب انجینئر تھے جو بعد میں ترقی کر کے ایس ٹی او بنے۔تقریبا ہر تین سال پر ان کی کسی نئے علاقے میں پوسٹنگ ہو جاتی تھی،ہمیں بھی ان کے ساتھ جانا پڑتا تھا۔ اس وقت سکول عام نہ ہونے کی وجہ سے بہت دورہوا کرتے تھے۔ ہمیں سکول جانے کے لیے کئی کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا تھا،سائیکل پر کئی کئی میل کچے راستوں اور پنگڈیوں سے ہوتے ہوئے بھی سکول جانا پڑا۔اس زمانے میں دیہات کے سکولوں میں دو کمرے ہوتے تھے اور ایک بڑا سا گراؤنڈ جس کی چار دیواری بھی نہیں ہوتی تھی۔اس میدان  میں شیشم کے درخت ہوتے،جس کے نیچے سیاہ تختہ لگا ہوتا،پڑھانے کے لیے ایک ماسٹر صاحب ہوتے،وہی تمام مضامین پڑھاتے تھے۔وہ ماسٹر صاحب اجلے کپڑوں میں زیب تن ،چمکتی ہوئی سائیکل میں آتے اور رول ماڈل شخصیت کے حامل ہوتے۔وہ ہمیں سکول کے بعد بھی دو گھنٹے بطور ٹیوشن پڑھاتے تھے۔لیکن اس کی کوئی فیس نہیں لیتے تھے۔اچھا رزلٹ ہی ان کا مقصد تھا۔ میں ملیشیا کی شلوار قمیض زیب تن کیے اور ملیشیا کا بستہ تھامے سکول جاتا۔ والدہ بریک میں کھانے کیلیے کپڑے کے پونے میں ایک پراٹھا اور انڈہ لپیٹ کر دیتی تھیں۔ ان سکولوں میں بیٹھنے کے لیے ٹاٹ بھی موجود نہیں تھے۔ ہم گھر سے پٹ سن کی بوری ساتھ لے جاتے تھے۔ غرض وسائل نہ ہونے کے برابر تھے،لیکن پھر بھی پڑھے،مایوس نہیں ہوئے، اساتذہ بھی پوری تن دہی سے اپنا فرض پورا کرتے تھے۔ پبلک سیکٹر کالجز میں بھی بہترین اساتذہ مجھے ملے جو فجر کی اذان کے ساتھ ہی ہمیں پڑھنے کے لیے اپنے گھر بلا لیتے تھے۔بغیر فیس لیے انھوں نے پڑھایا۔اس وقت نیکی کا جذبہ تھا کہ ہمارے طالب علم آگے بڑھیں۔یہ لوگ اب کہیں کھو گئے ہیں۔اب تعلیم کمرشل ہو گئی ہے۔ پیسے کے بغیر کوئی دو لفظ نہیں سکھاتا۔ہمارے اساتذہ کا دیاعلمی سرمایہ ہی تھا جس کی وجہ سے ہم نے دنیا بھر میں اے لیول اور او لیول والوں کو پیچھے چھوڑا۔نوجوانوں کومایوسی کاشکارہونیکی بجائیہمت اورمحنت سیکام لیناچاہیے۔
نوائے وقت: ڈاکٹر ثمر مبارک مند تھر میں زیر زمین تھرمل توانائی کا پروجیکٹ شروع کرنا چاہتے تھے،آپ نے اس پروجیکٹ کو کیسے چیلنج کیا؟
پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر: تھر میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند زیر زمین کوئلہ جلا کر بجلی پیدا کرنے کا پروجیکٹ شروع کرنا چاہتے تھے جس کی میں نے ہر فارم پر بھرپور مخالفت کی۔کیونکہ سائنسی اصولوں کے مطابق یہ ناممکن تھا جس سے صرف پیسہ اور وقت کا ضیاع ہونا تھا۔ میں پاکستان سے 40 رکنی وفد یوکے لے گیا اور وہاں ہم نے یوکے پی کے کول کانفرنس کے نام سیکانفرنس کی جس میں ہم  نے ثابت کیا کہ یہ پروجیکٹ ایک میگا واٹ بجلی بھی پیدا نہیں کر سکے گا۔ساتھ ہی میں نے تجاویز دیں کہ اصل میں  کیا کرنا چاہیے۔
نوائے وقت: ا?پ نے یونیورسٹی آف جھنگ کو کیسے اپنے قدموں پر کھڑا کیا؟
پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر: جب وہاں میری پوسٹنگ ہوئی تو صرف کھیت تھے اور فیکلٹی کے نام پر بس میں اکیلا ہی تھا۔ وہاں میں نے تین سال اور 7 ماہ بعد جب اس یونیورسٹی کو چھوڑا تو اس کی اپنی عمارت، 22 بی ایس پروگرام، 11 ایم فل پروگرام چل رہے تھے،اور 3400 طالب علم زیرتعلیم تھے۔ میری اس کاوش کو دیکھ کر حکومت نے مجھے کہا کہ میانوالی یونیورسٹی کو اسی طرح اپنے قدموں پر کھڑا کریں۔ سات ماہ میں میرے پاس جھنگ اور میانوالی کا چارج تھا۔
نوائے وقت: اعلی تعلیمی نظام میں بطور چیئرمین پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن کیا اصلاحات لارہے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر: اساتذہ اور طالب علموں کو پی ایچ ڈی کے لیے بیرونی ممالک بھیج رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اپلائیڈ ایجوکیشن کے لیے ہم نے دو ایکسپوز کیں جس میں  450 پروڈکٹس ڈسپلے کیے گئے۔یہاں پورے پنجاب کے چیمبر آف کامرسز کو مدعو کیا گیا۔اس کے علاوہ انٹر نیشنل سٹوڈنٹ کنونشن منعقد کیا تاکہ پنجاب انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کا حب بن جائے۔ہمارے آنے کے بعد پنجاب کی یونیورسٹیز کی رینکنگ بہتر ہوئی ہے۔پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر کی تفریق ختم ہو رہی ہے۔پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے پیرا میٹرز بنائے ہیں۔فیڈرل ایچ ای سی کیساتھ تعاون بڑھا رہے ہیں۔وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز یونیورسٹی طالب علموں کے لیے بڑے پراجیکٹس لانے والی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سکوٹیز کی سکیم متعارف کروائی۔
نوائے وقت: آپ کے خیال میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں ریسرچ زیادہ منظم انداز میں ہورہی ہے یا پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز میں؟
پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر:سرکاری جامعات کے پاس ریسرچ کا انفراسٹرکچر زیادہ اچھا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز میں ریسرچ چند سالوں سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ان کی پبلیکیشن کی تعداد بہت اچھی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب پبلیکیشن ریسرچز کی بجائے ہمیں ایسی ریسرچز کی طرف جانا چاہیے جو ہمارے بزنس سیکٹر اور دیگر شعبوں کے لیے مفید ہو۔ 
نوائے وقت: اونٹار پرینیور شپ پروگرام پبلک سیکٹر  یونیورسٹیز میں کم کیوں نظر آتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر: کوئی بھی حکومت پانچویں انڈسٹریل ریولوشن میں 100 فیصد لوگوں کو روزگار مہیا نہیں کر سکتی۔ وقت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ہنر مند بنائیں۔ پبلک سیکٹر میں اونٹار پرینیور شپ پروگرام کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور اس پر ہم کام بھی کر رہے ہیں۔پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے مری میں تین روزہ کانفرنسز کا اہتمام کیا جہاں تمام یونیورسٹیز کے وائس چانسلر مدعو تھے۔یہاں گورنر پنجاب بھی ہمارے ہمراہ تھے۔ہم نے  وائس چانسلرز کے سات کنسورشیم اسٹیبلش کیے۔11 پالیسی پیپرز ترتیب دیئے۔جس میں اونٹار پرینیور شپ بھی شامل ہے۔ہم نے طے کیا کہ تمام یونیورسٹیز اب جو نصاب طے کریں گی وہ آئی ٹی بیسڈ ہوگا۔ کیونکہ ورلڈ اکنامک فورمز کی رپورٹس ہمیں بتاتی ہیں کہ 2050 کی دنیا مکمل طور پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی دنیا ہوگی۔اس کے علاوہ اونٹار پرینیور شپ کے لیے پروفیسر آف پریکٹس کا ہونا بہت ضروری ہے جس کے لیے ہم  اساتذہ کو ٹریننگ دے رہے ہیں۔دنیا کی تمام بڑی یونیورسٹیز کی کامیابی کی وجہ وہاں  کے استاد ہیں، لہذا ہم اپنے اساتذہ پر جتنا انویسٹمنٹ کریں گے نتائج اتنے ہیں اچھے حاصل ہوں گے۔ اس کے علاوہ ہم نے یونیورسٹیز کو مختلف بزنس اینڈ انڈسٹریل ایگزیکٹوز کو اپنے بورڈ آف ٹیچنگ میں شامل کرنیکاکہاہے۔
نوائے وقت: پاکستانی نظام تعلیم اور بیرون ممالک کے نظام تعلیم میں آپ کو کیا فرق نظر آتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر:پہلا فرق اساتذہ کا ہے۔ہمارے صوبہ پنجاب میں 47 فیصد اساتذہ پی ایچ ڈی ہیں۔ جبکہ ایچ ای سی کہتا ہے کہ 67 فیصد اساتذہ کو پی ایچ ڈی ہونا چاہیے۔ باہر کے اساتذہ 100 فیصد پی ایچ ڈی ہیں۔ان ممالک میں اعلی تعلیم پر بجٹ کا بڑا حصہ مختص ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں  بجٹ جتنا مختص کیا جائے اتنا بھی نہیں ملتا۔
نوائے وقت: پنجاب کی چند جامعات میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کا مسئلہ کب حل ہورہا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر: اس مسئلے پر سرچ کمیٹیز بنا دی گئی ہیں۔ہماری کوشش یہی ہے کہ مسئلہ جلد حل ہو جائے۔انشاء￿ اللہ دو مہینے تک وائس چانسلرز تعینات ہو جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن