اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے خط پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہ کرے اسے جج نہیں ہونا چاہئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے۔ انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیراعظم اور ان کی کابینہ ہے۔ عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئندہ سماعت ججز دستیابی کی صورت میں ہوگی۔ دوران سماعت صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت نے دلائل کے آغاز پر کہا عدالتی کارروائی براہ راست پوری قوم دیکھ رہی ہے، جب ہم یہ کہیں کہ سپریم کورٹ شریک تھی یا اعلیٰ عدلیہ کمپرومائزڈ تھی تو ہم کوئی اچھا پیغام نہیں دے رہے، گذشتہ سماعت میں جو کہا گیا اس سے عوامی اعتماد متاثر ہوا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہم کس کو جواب دیں، عوام کو جواب دہ ہیں۔ صدر سپریم کورٹ بار نے کہا ہم اللہ کو جواب دہ ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہم نے 76سال جھوٹ بولا سچ کو چھپایا، جس سے ہماری ساکھ خراب ہوئی، لوگوں کو سچ کا علم ہونا چاہیے، اس سے خوفزدہ نہ ہوں۔ صدر سپریم کورٹ بار نے کہا سچ کہیں اور سے آنا چاہے اگر آپ یہاں بیٹھ کر تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ شریک تھے تو پھر اس کا کیا جواب ہوگا۔ چیف جسٹس نے واضح کہا اگر کوئی یہ کہے کہ وہ شریک تھا تو پھر اسے یہاں عدالت میں نہیں بیٹھنا چاہیے، پھر یہاں کیوں بیٹھے ہیں گھر جائیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا میں نے وہی کہا ہے جو اٹارنی جنرل بھی کہہ چکے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے مختلف وکلا تنظیموں اور وکلا کی طرف سے انفرادی تجاویز جمع کرنے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے عدلیہ کی آزادی کے معاملے پر بھی وکلاء ایک صفحے پر نہیں آسکے۔ اٹارنی جنرل نے پچھلی سماعت کا حکمنامہ جاری کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت کے اندر حکمنامے پر دستخط کیے گئے اور جسٹس اطہر من اللہ نے حکمنامے پر ہاتھ سے اپنا الگ نوٹ لکھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ایک ایسا نظام وضع کرنا ہے کہ جب ایک جج کھڑا ہوجائے تو پوری عدلیہ ان کے پیچھے کھڑی ہو اور اگر جج ملا ہوا ہو تو اسے فوری نکالا جاسکے، سسٹم بنانے سے جج طاقتور ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ساری سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں عدلیہ ان کیلئے استعمال ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا دو ہزار اٹھارہ میں ایک سیاسی جماعت بینیفشری تھی آج کوئی اور بینیفشری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا دنیا کا سب سے بڑا اصول سچ بولنا ہے، سچ ہر چیز کو ٹھیک کر دیتا ہے، ججوں کو دباؤ میں نہیں آنا چاہیے، ہمیں تنخواہ فرض کی ادائیگی کی دی جاتی ہے، جو دباؤ میں آتا ہے اسے گھر جانا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا جو اختیار سپریم کورٹ استعمال نہیں کرسکتی، ایک سول جج سے کیسے توقع رکھی جائے کہ وہ توہین عدالت کا اختیار استعمال کرے گا، 3نومبر 2007 کو سات ججوں نے ایک آرڈر جاری کیا جب عوام کی طاقت سے عدلیہ بحال ہوئی تو سات ججوں کے آرڈر کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس عدالت کو کارروائی کی جرات ہی نہیں تھی، جب سپریم کورٹ کو جرات نہیں تو نیچے عدلیہ کیسے کرے گی۔ چیف جسٹس نے ریما رکس دیئے کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ اور ہر ادارے میں ہوتے ہیں، ججوں میں بھی ہوتے ہیں، اور وکیلوں میں بھی، ان ججوں کی ستائش کرنی چاہیے جو کھڑے ہوئے اور گھروں کو چلے گئے، یہ تاثر درست نہیں کہ جج کمزور ہیں، ایک سول جج کو بھی کوئی نہیں نکال سکتا، ججوں کے خلاف کارروائی کا فورم ججوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اپنے حلف کی حفاظت کرنے کا دارومدار جج پر ہے۔ اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکر معاملے پر حکومت کا جواب جمع کرنے کے لیے ایک دن کی مہلت کی استدعا کی اور کہا کہ پچھلی سماعت کا تحریری حکم نامہ ابھی نہیں ملا، حکومت کا جواب داخل کرنے کے لیے حکمنامہ وزیراعظم کو دکھانا ضروری ہے جبکہ وزارت دفاع سے بھی رابطہ کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر عدالتی عملے سے استفسار کیا کہ کیا حکم نامے پر دستخط ہو گئے اگر نہیں تو کیوں نہیں ہوئے؟، عدالت نے کھلی عدالت میں حکم نامہ لکھوایا تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا آج حکم نامہ مل جائے تو حکومت کل تک اپنا جواب داخل کردے گی۔ کمرہ عدالت میں حکمنامے پر دستخط نہ کرنے والے تین ججوں کے دستخط کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو پچھلی سماعت کا حکمنامہ پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی۔ اٹارنی جنرل نے حکمنامہ پڑھ کر سنایا تو چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جج کا الگ نوٹ بھی پڑھ کر سنائیں۔ اٹارنی جنرل کو جسٹس اطہر من اللہ کے ہاتھ سے لکھے نوٹ پڑھنے میں دشواری پیش آرہی تھی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے خود اپنا نوٹ پڑھا جس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایجنسیاں کنٹرول کرتی ہے، وفاقی حکومت الزامات کا جواب دے، وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، ہائیکورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے، وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے کہ مداخلت نہیں ہورہی۔ چیف جسٹس نے کہا پہلے ہم بارز کو سنیں گے اور اس کے بعد انفرادی وکلا کو۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے وکلا اور بارز کی طرف سے الگ الگ تجاویز جمع کرنے پر سوال اٹھایا تو وکیل احسن بھون نے کہا کہ جب عدالت انفرادی حیثیت میں وکلا کو سننے کی اجازت دے گی تو ایسا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا ہم روایت نہیں ڈال رہے، جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان بار کونسل کی طرف سے وائس چیئرمین ریاضت علی سحر پیش ہوئے اور کہا کہ جج کے بہنوئی کو اغوا کرنا، سیشن جج کے گھر میں کریکر پھینکنا اور جج کے بیڈ روم میں جاسوسی کے لیے کیمرے نصب کرنا سنگین الزامات ہیں جس کا تعلق فوجداری جرائم سے ہیں۔ انہوں نے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کی سفارش کی اور کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک یا ایک سے زیادہ حاضر سروس ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کا تعین کرکے سزا دی جائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ججوں کے ساتھ وکلا کی ملاقاتوں پر پابندی لگانے بارے ریمارکس دیتے ہوئے کہا عدلیہ کے ججوں کے ساتھ وکلا کی ملاقاتوں سے ماتحت عدلیہ دباؤ میں آتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا سچ سب سے بڑا اصول ہے، جب ایک کمشنر نے جھوٹ بولا تو کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے، سب ان کے پیچھے چل پڑے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی طرف سے وکیل احمد حسن شاہ نے پیش ہوکر دلائل دیے اورکہا کہ عدلیہ میں اندرونی اور بیرونی مداخلت کا جائزہ لینا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا پچھلے پچاس سال میں جو ہوا ہم اسے نہیں بدل سکتے، صرف ہمدردی رکھ سکتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ایک جج خود کو اتنا مضبوط کرے کہ کسی کو اسے دباؤ میں لانے کی جرات نہ ہو، دباؤ میں آئے گا تو بھگتے گا، مجھ پر بھی دباؤ ڈالنے کی کوششیں ہوئی کوئی کامیاب ہوا ہو۔ چیف جسٹس نے کہا ایک جج کو آئینی تحفظ حاصل ہے، سپریم جوڈیشل کونسل میں انتظامیہ یا انٹیلی جنس اداروں کے لوگ نہیں ہوتے، ایک سول جج کا معاملہ ہائی کورٹ دیکھتی ہے، عدلیہ کی ہر سطح پر آزادی یقینی بنانے کی ضرورت ہے، عدلیہ کو سپریم کورٹ کے ماتحت کرنے سے عدلیہ غیر محفوظ ہوجائے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا مارکیٹ میں ایسی کوئی گولی نہیں جس کے کھانے سے جج مضبوط ہوجائے، وہ سسٹم سے طاقتور ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کیا کیس نہ لگانا بھی انٹیلی جنس اداروں کا قصور ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل حامد خان نے سے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کیس میں آپ نے جلد سماعت کی کتنی درخواستیں دائر کیں، لیکن کیس پھر بھی سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالتی امور میں مداخلت پر جج خود کارروائی کرنے کے بجائے شکایت کرے تو اپنا اختیار خود کم کرتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک آئین کے مطابق چل رہا ہے یا نہیں، اگر عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ملک آئین کے مطابق نہیں چل رہا۔