سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے فیصلہ سناتے ہوئے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 بنانے کا اختیار نہیں ہے، یہ ایکٹ آئین کے خلاف ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس سے متعلق ایک نوٹ میںان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے مطابق صرف سپریم کورٹ کو قوانین بنانے کا اختیار ہے، یہ اختیار عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے بہت ضروری ہے۔
32 صفحات پر مشتمل نوٹ میں جسٹس عائشہ ملک نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ عدلیہ کی آزادی ایک بنیادی حق ہے اور عدلیہ کے کام کرنے اور آزاد رہنے کے حوالے سے معاملات عوام کیلئے اہم ہیں، عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور انصاف تک لوگوں کی رسائی سے متعلق مسائل ہمیشہ ہر ایک کیلئے اہم ہوتے ہیں۔ جسٹس ملک نے کہا کہ آئین نے اپیل کا حق دیا ہے جس سے سپریم کورٹ کسی فریق کو محروم نہیں کر سکتی، انہوں نے کہا کہ ایسا کر کے قانون سازوں نے سپریم کورٹ کے بنیادی کردار میں مداخلت کی جو عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی علیحدگی کے اصولوں کے خلاف ہے۔جسٹس شاہد وحید نے اپنے نوٹ میں عدالتوں کی آزادی اور خودمختاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اندرون و بیرون ہر قسم کی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر کام کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ خودمختاری کسی سمجھوتے کا معاملہ نہیں ہے کیونکہ یہ سپریم کورٹ کی روح اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔جسٹس شاہد وحید نے مزید کہا کہ یہ ایکٹ سپریم کورٹ کی آزادانہ اور موثر طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت کو مجروح کرتا ہے، جو کہ آئین کے تحفظ کیلئے ضروری ہے, لہٰذا اس کی بنیاد پر ایکٹ برقرار نہیں رہ سکتا۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ کے 15 ججوں پر مشتمل فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 ءکیس کا فیصلہ سنایا تھا۔سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کے بعد 5 کے مقابلے میں 10 کی اکثریت سے ایکٹ برقرار رکھتے ہوئے اس کے خلاف دائر ہونے والی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی گئی تھی جسے براہ راست نشر کیا گیا تھا۔ عدالت کی جانب سے مختصر فیصلے میں کہا گیا تھاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 برقرار رہے گا جو اسلامی جمہوری پاکستان کے آئین کے مطابق ہے اور اس کے خلاف درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔