یہ لازمی نہیں ہے کہ ناممکن کا لفظ نپولین کی ڈکشنری میں نہیں تھا عزم راسخ اور مصمم ارادہ سے ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے اور مسلمان تو ویسے بھی ”ہمتِ مرداں مددِ خدا“ پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق ایسے عالی ہمت انسانوں کے عقل کو حیران کر دینے والے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے تن تنہا وہ کچھ کر دیا جس کے لئے ایک بڑے ادارے اور تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاشبہ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر آصف جاہ کا شمار ایسے ہی انسانوں میں ہوتا ہے قدرت نے انہیں خدمتِ خلق کے جنون سے آشنا کر رکھا ہے۔ 2005ءکے زلزلہ کے موقع پر یہ ان کا خدمتِ خلق کا جنون ہی تھا جو انہیں ایسے دور دراز دشوار گزار علاقوں میں لے گیا جہاں حکومتی ادارے تک رسائی حاصل نہیں کر سکے تھے اور یہ ان کے اخلاصِ نیت کا صلہ ہی ہے کہ پنجاب اور خیبر پی کے کی حکومتیں جو کام نہ کر سکیں ڈاکٹر آصف جاہ نے کر دکھایا۔ ان کی قیادت میں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی نے سیلاب سے متاثرہ ساٹھ ہزار سے زائد افراد کا علاج کیا۔ ساڑھے بارہ ہزار بچوں کو ٹائیفائڈ سے بچاﺅ کے انجکشن لگائے اور 4 کروڑ کا سامان تقسیم کیا۔ ڈاکٹر صاحب سے سوسائٹی کے محدود وسائل کے پیش نظر نوشہرہ کے علاقے میں جو سب سے زیادہ متاثر ہوا 50 گھر بنانے یا تباہ شدہ گھروں کو بحال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ مزید وسائل ہوئے تو 100 گز پر 200 ارب 500 گھر بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اپنا گھر کے نام سے اس منصوبے کے تحت نوشہرہ میں 200 گھروں میں سے 120 تیار ہو چکے ہیں باقی 80 گھر ماہ رواں میں مکمل کر لئے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے یہ گھر مالکان کے سپرد کرنے کی تقریب میں شرکت کی حامی بھری ہے اپنا گھر پراجیکٹ پنجاب کی جانب سے پختون بھائیوں کے لئے جذبہ اخوت کا پیغام بھی ہے۔ پنجاب میں تو متاثرہ علاقوں میں کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ خیبر پی کے میں تو حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے بتایا کہ مکانات کی تعمیر کے سلسلے میں بیواﺅں اور بے روزگار افراد کو ترجیح دی گئی ہے۔ پنجاب کے شدید متاثرہ علاقے مظفرگڑھ میں بھی ایسے مکانات کی تعمیر جاری ہے۔ دوسرے مکان کی تعمیر زمین کی ملکیت سے مشروط کی گئی ہے تاکہ یہ نہ ہو کہ غریب متاثرین کے نام پر خانوں اور بڑے زمینداروں کے مکان تعمیر ہو جائیں۔ نوشہرہ میں ایک مکان کی لاگت 2 لاکھ روپے جبکہ مظفرگڑھ میں ایک مکان کی تعمیر کی لاگت ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے ہے ہر گھر کے مکین تعمیراتی عمل میں بطور مزدور کام کر رہے ہیں تاکہ اُنہیں اپنا گھر خود تعمیر کرنے کا احساس بھی ملے اس کے ساتھ ساتھ انہیں باقاعدہ مزدوری بھی ادا کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے 29 جولائی کو ایک لاکھ روپے قرض لے کر ریلیف کا کام شروع کیا تھا مخیر حضرات کے تعاون سے آج وہ متاثرہ افراد کو دونوں صوبائی حکومتوں سے پہلے گھر فراہم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ پنجاب میں ایسے گاﺅں بھی ہیں جہاں ابھی ٹینٹ تک نہیں پہنچے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے پیسے یا عطیات کا صحیح استعمال ہو انہیں ڈاکٹر صاحب سے تعاون کرنا چاہئے۔ سوسائٹی کا اکاﺅنٹ نمبر 5448-9 (بنک کوڈ این بی پی اے پی کے کے اے۔ 02L۔ 1887) نیشنل بنک مون مارکیٹ اقبال ٹاﺅن لاہور ہے، اور سی بی آر کی جانب سے تمام عطیات انکم ٹیکس سے مستثنٰی ہیں۔ اس عاجز کا یقین ہے کہ اگر خیبر پی کے اور پنجاب کی حکومتیں ڈیزاسٹر مینجمنٹ محکمے بنانے کی بجائے حکومتی وسائل کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کو مُہیا کر دے تو چند مہینوں میں تباہ شدہ بستیاں دوبارہ آباد ہو جائیں گی۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے پرعزم اور بے لوث ساتھیوں کو نہ بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات دینی پڑیں گی۔ نہ عالیشان دفاتر اور نہ ہی قیمتی گاڑیاں دینی پڑیں گی آزمائش شرط ہے۔
”اپنا گھر“ حیرت انگیز منصوبہ
Nov 08, 2010
یہ لازمی نہیں ہے کہ ناممکن کا لفظ نپولین کی ڈکشنری میں نہیں تھا عزم راسخ اور مصمم ارادہ سے ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے اور مسلمان تو ویسے بھی ”ہمتِ مرداں مددِ خدا“ پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق ایسے عالی ہمت انسانوں کے عقل کو حیران کر دینے والے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے تن تنہا وہ کچھ کر دیا جس کے لئے ایک بڑے ادارے اور تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاشبہ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر آصف جاہ کا شمار ایسے ہی انسانوں میں ہوتا ہے قدرت نے انہیں خدمتِ خلق کے جنون سے آشنا کر رکھا ہے۔ 2005ءکے زلزلہ کے موقع پر یہ ان کا خدمتِ خلق کا جنون ہی تھا جو انہیں ایسے دور دراز دشوار گزار علاقوں میں لے گیا جہاں حکومتی ادارے تک رسائی حاصل نہیں کر سکے تھے اور یہ ان کے اخلاصِ نیت کا صلہ ہی ہے کہ پنجاب اور خیبر پی کے کی حکومتیں جو کام نہ کر سکیں ڈاکٹر آصف جاہ نے کر دکھایا۔ ان کی قیادت میں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی نے سیلاب سے متاثرہ ساٹھ ہزار سے زائد افراد کا علاج کیا۔ ساڑھے بارہ ہزار بچوں کو ٹائیفائڈ سے بچاﺅ کے انجکشن لگائے اور 4 کروڑ کا سامان تقسیم کیا۔ ڈاکٹر صاحب سے سوسائٹی کے محدود وسائل کے پیش نظر نوشہرہ کے علاقے میں جو سب سے زیادہ متاثر ہوا 50 گھر بنانے یا تباہ شدہ گھروں کو بحال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ مزید وسائل ہوئے تو 100 گز پر 200 ارب 500 گھر بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اپنا گھر کے نام سے اس منصوبے کے تحت نوشہرہ میں 200 گھروں میں سے 120 تیار ہو چکے ہیں باقی 80 گھر ماہ رواں میں مکمل کر لئے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے یہ گھر مالکان کے سپرد کرنے کی تقریب میں شرکت کی حامی بھری ہے اپنا گھر پراجیکٹ پنجاب کی جانب سے پختون بھائیوں کے لئے جذبہ اخوت کا پیغام بھی ہے۔ پنجاب میں تو متاثرہ علاقوں میں کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ خیبر پی کے میں تو حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے بتایا کہ مکانات کی تعمیر کے سلسلے میں بیواﺅں اور بے روزگار افراد کو ترجیح دی گئی ہے۔ پنجاب کے شدید متاثرہ علاقے مظفرگڑھ میں بھی ایسے مکانات کی تعمیر جاری ہے۔ دوسرے مکان کی تعمیر زمین کی ملکیت سے مشروط کی گئی ہے تاکہ یہ نہ ہو کہ غریب متاثرین کے نام پر خانوں اور بڑے زمینداروں کے مکان تعمیر ہو جائیں۔ نوشہرہ میں ایک مکان کی لاگت 2 لاکھ روپے جبکہ مظفرگڑھ میں ایک مکان کی تعمیر کی لاگت ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے ہے ہر گھر کے مکین تعمیراتی عمل میں بطور مزدور کام کر رہے ہیں تاکہ اُنہیں اپنا گھر خود تعمیر کرنے کا احساس بھی ملے اس کے ساتھ ساتھ انہیں باقاعدہ مزدوری بھی ادا کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے 29 جولائی کو ایک لاکھ روپے قرض لے کر ریلیف کا کام شروع کیا تھا مخیر حضرات کے تعاون سے آج وہ متاثرہ افراد کو دونوں صوبائی حکومتوں سے پہلے گھر فراہم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ پنجاب میں ایسے گاﺅں بھی ہیں جہاں ابھی ٹینٹ تک نہیں پہنچے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے پیسے یا عطیات کا صحیح استعمال ہو انہیں ڈاکٹر صاحب سے تعاون کرنا چاہئے۔ سوسائٹی کا اکاﺅنٹ نمبر 5448-9 (بنک کوڈ این بی پی اے پی کے کے اے۔ 02L۔ 1887) نیشنل بنک مون مارکیٹ اقبال ٹاﺅن لاہور ہے، اور سی بی آر کی جانب سے تمام عطیات انکم ٹیکس سے مستثنٰی ہیں۔ اس عاجز کا یقین ہے کہ اگر خیبر پی کے اور پنجاب کی حکومتیں ڈیزاسٹر مینجمنٹ محکمے بنانے کی بجائے حکومتی وسائل کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کو مُہیا کر دے تو چند مہینوں میں تباہ شدہ بستیاں دوبارہ آباد ہو جائیں گی۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے پرعزم اور بے لوث ساتھیوں کو نہ بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات دینی پڑیں گی۔ نہ عالیشان دفاتر اور نہ ہی قیمتی گاڑیاں دینی پڑیں گی آزمائش شرط ہے۔