یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کی طلبا سوسائٹی نے 6 نومبر 2010ءکو ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں طلبا و طالبات کے گروپس نے ”ٹریجڈی اینڈ ہوپ“ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تقریب صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک جاری رہی جبکہ آخری مراحل میں پاکستان مسلم لیگ (نواز گروپ) کے ایم این اے حمزہ شہباز شریف نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کرنا تھی مگر وہ تشریف نہ لائے‘ چنانچہ اس یونیورسٹی کے ریکٹر میاں عامر محمود بھی تشریف نہیں لائے اور فیکلٹی آف انجینئرنگ کے ڈین ڈاکٹر فواد رﺅف نے بتایا کہ اگر حمزہ شہباز شریف آ جاتے تو یونیورسٹی کے ریکٹر ہی ان کا خیرمقدم کرتے اس تقریب کی جو پریس ریلیز جاری کی گئی اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ قومی اسمبلی کے رکن پرویز ملک نے بھی یونیورسٹی کے پُرہجوم آڈیٹوریم میں سٹوڈنٹس اینڈ فیکلٹی کو خطاب کیا حالانکہ وہ بھی اس تقریب میں تشریف نہیں لائے تھے تاہم رانا لیاقت علی خان کا وجود غنیمت ثابت ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ میٹالرجیکل انجینئر ہیں اور چھ سال تک پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں اور جی آئی کے انسٹیٹیوٹ میں بھی چیف انجینئر رہے ہیں۔ انہوں نے آج ڈاکٹر عبدالقدیر خان، اپنے عہدے کے بینک بی سی سی آئی کے سربراہ ڈاکٹر حسن عابدی اور پاکستان کے سابق صدر غلام اسحاق خان کو گرانقدر الفاظ میں خراجِ ستائش پیش کیا اور کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان دشمن بڑی طاقتوں کے ایما پر بی سی سی آئی کو منی لانڈرنگ کی آڑ میں ختم کیا حسن عابدی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تکمیل تک پہنچا دینے میں حکومتِ پاکستان کی اقتصادی معاونت کر رہے تھے، ہم نے چائے پر رانا لیاقت علی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے ان خیالات کی پھر توثیق کرائی اور ان سے عرض کیا کہ حسن عابدی ہر کارِ خیر میں معاونت کا دماغ رکھتے تھے۔ انہوں نے برِصغیر پاک و ہند کے عظیم سخنور علامہ سیماب اکبر آبادی کے منظوم ترجمہ قرآنِ مجید کی اشاعت میں بھی معاونت کی تھی، وہ ترجمہ علامہ سیماب اکبر آبادی نے 1943ءمیں کیا تھا مگر اشاعت کے لئے فنڈز مہیا نہ ہونے کے باعث وہ 1981ءتک شائع نہ ہو سکا تاآنکہ حسن عابدی کی اقتصادی معاونت سے وہ شائع ہوا تو اس دور کے صدر ضیاءالحق نے اس منظوم اردو ترجمہ کو صدارتی ایوارڈ دیا۔ رانا لیاقت علی نے کہا کہ جی آئی کے انسٹی ٹیوٹ کی تعمیر کے لئے بھی سب سے پہلا ڈونیشن حسن عابدی ہی نے دیا تھا اور اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اپنے منصب پر فائز رہتے اور ان کو نیچے نہ کھینچا جاتا اور حسن عابدی بھی حیات ہوتے اور ان کا بی سی سی آئی قائم ہوتا تو پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے جا چکا ہوتا۔ اپنی تقریر میں رانا لیاقت علی خان نے ”ریفلیکشن“ کے عنوان سے مضمون نگاری میں حصہ لیکر پوزیشن حاصل کرنے والوں میں انعامات بھی تقسیم کئے اور ان کو بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرنے پر مبارکباد بھی دی اور وعدے کے مطابق حمزہ شہباز شریف کے اس تقریب میں شمولیت نہ کر پانے پر معذرت بھی کی اور ’ٹریجڈی اینڈ ہوپ‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہوپ‘ کی ہمارے پاس نہ تو کوئی صورت ہے اور نہ ہی پاکستان کے اندر کسی سے کوئی ’ہوپ‘ وابستہ کی جا سکتی ہے یہاں تو صورت یہ ہے کہ کروڑوں روپے دے کر عہدے حاصل کئے جا رہے ہیں، پہلے ان سے کروڑوں روپے ادا کرنے کا عہد لیا جاتا ہے اور پھر ان کو کسی محکمے کا سربراہ بنایا جاتا ہے۔ نہ جانے ان کا اشارہ کس طرف تھا؟ مگر بات تو واضح اور بڑی تھی۔