پرامن، شائستہ انتخابی مہم

امریکی صدارتی مہم تمام امریکی ریاستوں میں پرامن طریقہ سے جاری رہنے کے بعد ختم ہوگئی اور سیاہ فام بارک اوباما دوسری مرتبہ پھر امریکی صدر منتخب ہوگئے، اس تمام تر انتخابی مہم کے دوران کوئی لڑائی جھگڑا، دنگا فساد، گالم گلوچ اور کوئی غیر شائستہ حرکت نظر نہیں آئی۔ اس طویل انتخابی مہم کے دوران برداشت، تحمل، رواداری، حب الوطنی کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ ہمارے ہاں ہر معاملے میں دوسروں اور خاص طور پر امریکہ کو برا بھلا اور لعن طعن کہنے کی جو روش جاری ہے کیا ہم نے ان کے اور اپنے اخلاقی رویوں کا موازنہ اور محاسبہ کرنے کی ذرا بھی زحمت گوارا کی، ہمارے نزدیک وہ غیر مسلم اور دیگر اخلاقی برائیوں میں ملوث ہےں ۔ ہم مسلمان ہوکر انتخابی مہم کے دوران کس کلچر اور رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں، مخالف اور اس کے سپورٹروں کے گھروں، جلسوں اور جلوسوں پر حملے، ایک دوسرے پر غیر اخلاقی اور شرمناک بے ہودہ الزامات کی بوچھاڑ، جعلی ووٹ بھگتانا، بیلٹ بکس اٹھالینا، مخالفین کا اغوا ،فائرنگ اور دیگر غیر اخلاقی ہتھکنڈے ہماری انتخابی مہم کا لازمی جزو بن چکے ہیں جبکہ انتخاب کے بعد نتائج کو تسلیم نہ کرنا، دھاندلی کا الزام لگانا اور جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنا یہ بھی ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ انکی پر امن انتخابی مہم دیکھ کر رشک آتا ہے۔کاش یہ مناظر پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملتے،لیکن امریکی معاشرے کی یہ اخلاقی تربیت ایک دن یا ایک سال میں نہیں ہوئی۔اس کے پیچھے طویل ترین جدوجہد اور قربانیاں بھی ہیں۔ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ۔بھلا امریکہ اور یورپ نے یہ سب اخلاقی اقدار کہاں سے سیکھی ہیں، اسلام کی اعلیٰ، ارفع اور روشن مثالیں ان کے سامنے تھیں جن پر عمل کرکے وہ اوج ثریا پر پہنچ گئے اور ان سے روگردانی کرکے ہم ابتلا و آزمائش کا شکار ہوگئے۔ ہارنے والے رومنی نے اعلیٰ ظرف اور اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارک اوباما کو مبارکباد اور اپنی شکست تسلیم کرلی، اس نے تو کسی دھاندلی کا الزام لگا کر کسی لانگ مارچ یا سونامی کا اعلان نہیں کیا، کیا ہمارے سیاستدان اور ان کے سپورٹر ”کافر“ امریکہ کے اس اخلاقی رویے کی تقلید یا پاسداری کا حوصلہ اور ظرف رکھتے ہیں۔ہمیں بحثیت قوم اپنا محاسبہ اورکمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن