رومنی جیتے تو مونچھیں منڈوا دوں گا۔ اوباما کے معاون کا اعلان۔
پنجابی کی مثال ہے کہ ” مُچھ نئیں تے کچھ نئیں“ جیسا کہ گورنر لطیف کھوسہ نے جناب نیلسن منڈیلا کا شجرہ بھی کھوسہ خاندان سے ملایا تھا‘ اوباما کے معاون ڈیوڈ ایکسل لارڈ کا تعلق بھی شاید ہمارے پنجاب سے ہے کیونکہ ہمارے ہاں مونچھوں کو بہت اہمیت حاصل ہے لیکن ڈیوڈ ایکسل کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ مونچھوں کی عزت و تکریم صرف مشرق میں ہی نہیں‘ مغرب میں بھی پائی جاتی ہے۔مونچھیں کئی قسم کی ہوتی ہیں‘ اکثر مونچھیں چہرے پر دور سے ہی نظر آجاتی ہیں‘ جبکہ بعض مونچھیں اتنی باریک ہوتی ہیں کہ قریب سے بھی دکھائی نہیں آتیں۔ ایسے شوقین بھی ہیں جن کی مونچھیں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ انہوں نے مونچھیں نہیں رکھیں‘ بلکہ مونچھوں نے انہیں رکھا ہوا ہے۔
ہمارے ہاں مونچھوں کے کئی عالمی ریکارڈ موجود ہیں۔ حال ہی میں ایک شخص نے مونچھوں سے گاڑی کھینچنے کا مظاہرہ کرکے ریکارڈ قائم کیا ہے‘ جس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ آئے روز پٹرول مہنگا ہونے کے باعث اب مونچھیں گاڑی چلانے کے کام بھی آئینگی۔ ڈیوڈ ایکسل شکر کریں کہ اوباما جیت گئے ورنہ وہ مچھ منڈا منہ کسی کو دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ بہرحال امریکی صدر اوباما کو اپنی نئی جیت مبارک ہو۔
٭....٭....٭....٭
فضل الرحمان فرماتے ہیں‘ برطانیہ دنیا میں قیام امن کیلئے کردار ادا کرے۔
دنیا کا امن برباد کرنے میں جس کا کلیدی کردار ہے‘ مولانا اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی بات کر رہے ہیں۔ مولانا صاحب! دنیا کے امن کی فکر نہ کریں کیونکہ دنیا بہت بڑی ہے ‘ وہ صرف چھوٹے سے کشمیر میں ہی برطانیہ سے امن قائم کروا کر اس کا منصفانہ حل نکلوا لیںجو اسی کا پیدا کردہ ہے‘ تو یہ انکا تاریخی کارنامہ ہو گا اور اس طرح انکے تمام ذنوب معاف ہو سکتے ہیں۔ خیر سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں‘ اگر وہ چیئر چھوڑ کر صرف ”مین“ (بندہ) کا کردار ادا کرتے تو اب تک کشمیر کے مسئلہ پر کچھ نہ کچھ ہل جل ہو سکتی تھی ۔
کہتے ہیں‘ فربہ خوامخواہ معتبر۔ مولانا بھی اپنے وجود کی نسبت سے خاصے معتبر ہیں۔ مشہور اردو شاعر عبدالحمید عدم بھی خاصے بھاری بھرکم جسم کے مالک تھے‘ وہ محفل میں اکثر اپنا تعارف صرف اپنا تخلص ”عدم“ کہہ کر کروایا کرتے تھے۔ ایک محفل میں جب انہوں نے اپنا تعارف عدم کہہ کر کروایا تو ایک شخص نے انہیں دیکھ کر سرگوشی کی ”اگر یہ عدم ہے تو وجود کیا ہوگا؟“
مولانا واقعی بہت پیار محبت والے بندے ہیں‘ انہوں نے ہمیشہ متحد ہو کر رہنے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت کے ساتھ انکا اتحاد قائم رہا۔ بہرحال مولانا برطانیہ سے دنیا کے امن کی بھیک مانگنے کے بجائے امن کی اس کنجی کا زنگ صاف کرکے اس کا استعمال شروع کریں‘ جو ہمیں چودہ سو سال پہلے دی گئی تھی۔
٭....٭....٭....٭
امریکہ میں ایک خاتون نے پہلے ووٹ ڈالا پھر بچے کو جنم دیا۔
اس خاتون نے پہلے ووٹ اور بعد میں بچے کو جنم دیکر ثابت کر دیا کہ بچے سے زیادہ ووٹ کی اہمیت ہے‘ کیونکہ ووٹ کا صحیح استعمال ہی ملک و قوم کے بہتر اور روشن مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے۔ ووٹ ایک قومی امانت ہے‘ جس کا استعمال صحیح اور ضروری ہے۔ ہمارے ہاں بھی الیکشن ہونےوالے ہیں‘ حالات سازگار نہ ہونے کا بہانہ بناتے ہوئے ابھی تک اسکی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔ حالانکہ ہمارے ملکی حالات امریکہ سینڈی طوفان کی تباہی کے آگے کچھ معنی نہیں رکھتے۔ اسکے باوجود وہاں پر الیکشن مقررہ وقت پر ہی منعقد ہوئے۔ ہمارے الیکشن کمیشن کو اگر سینڈی طوفان سے نہیں تو کم از کم اس امریکی خاتون سے سبق سیکھنا چاہیے جس نے اس نازک حالت میں بھی اپنے ہونیوالے بچے سے زیادہ اپنے ووٹ ڈالنے کے فرض کو اہمیت دی۔
ہمارے ہاں بھی الیکشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں‘ دیکھتے ہیں ہماری کتنی خواتین اس امریکی خاتون کی طرح جذبہ رکھتے ہوئے ووٹ کو اہمیت دیتی ہیں۔
٭....٭....٭....٭
محمدعلی درانی کہتے ہیں‘ الیکشن سے پہلے بہاولپور صوبہ بحال نہ ہوا تو تحریک چلائیں گے۔
مشرف کی باقیات میں سے ایک اور ہونہار بروا بیان سرا ہوئے ہیں‘ جسے ہم نغمہ¿ صحرائی سے کم نہیں سمجھتے۔ بہتر ہوتا کہ وہ اپنا بیان منظوم کراکے ریشماں سے گانے کو کہتے۔ اس طرح بہاولپور بنتا نہ بنتا‘ ان کا دور تو لوگوں کو یاد آجاتا۔ آج ان کا ممدوح دربدر خاک بسر مغرب کی عیش گاہوں میں محو خرام ہے‘ ان کی خدمات کیوں نہیں حاصل کرتے؟ رجعی میں تو رجوع ہو سکتا ہے۔
درانی صاحب نے الیکشن سے پہلے تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے‘ یہاں پہلے کیا چیز چل رہی ہے جو یہ تحریک چلے گی اور الیکشن بھی چلیں گے تو انکی تحریک پہلے چل سکے گی اس لئے کیوں اہل بہاولپور کو لالی پاپ دے رہے ہیں۔ اپنے عہدِ وزارت میں وہ کس قدر خوش شکل اور خوش صحت تھے لیکن اب انکے روئے احمریں پروہ رونقِ اقتدار کہاں‘ اقتدار کی لت پڑ جائے تو کوئی نہ ملے اپنے ہی علاقے کے لوگ تو ہیں‘ ان پر فرضی حکمرانی تو کی جا سکتی ہے۔ بذریعہ تحریک ہی کیوں نہ ہو۔ بہاولپور کا صوبہ کیوں بناتے ہیں‘ بنانا ہے تو اسے ریاست بنائیں اور نادر شاہ درانی کی طرح وہاں اپنی نادر شاہی قائم کریں اور نادر شاہی حکم بھی چلائیں۔ تحریک نہ چلائیں کہ یہ نہ ہو وہ خود بھٹکے ہوئے آہو کی طرح سوئے روہی چل پڑیں اور روہی پکار اٹھے....ع
ول روہی اٹھڑی تھئی گلزاراں