لاہور (رپورٹ: رفیعہ ناہید اکرام/لیڈی رپورٹر) ویمن امپارومنٹ کے بلند بانگ حکومتی دعوو¿ں کے باوجود ملک بھر کی عام عورت کو آج بھی معاشرے میں معاشی وسماجی مقام کے حوالے سے لاتعداد مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔ عورت کو بنیادی ومساوی حقوق کی فراہمی اور اس کیخلاف فرسودہ رسومات، تشدد، استحصال و امتیازی رویوں کے خاتمے کیلئے قانون سازی کے باوجوداس کے سماجی مقام ومرتبے میں تبدیلی آنے کی بجائے حالت زار بگڑتی جارہی ہے۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں اسے وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو اسے اسلام نے ودیعت کررکھے ہیں۔ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوںکی خواتین ارکان پنجاب اسمبلی نے نوائے وقت سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ تمام خواتین ارکان پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر عورت کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتی ہیں۔ مسلم لیگ ق کی ماجدہ زیدی اور سیمل کامران نے کہا کہ مرد کے معاشرے میں عورت کے جینے اور ترقی کی راہیں بہت مسدود کر دی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی عظمیٰ بخاری نے کہا کہ الیکشن کے دنوں میں تمام سیاسی جماعتیں عورتوں کے مسائل کے حل کو نعرے کے طور پر تو ضرور استعمال کرتی ہیں اور اسے اپنے منشور میں بھی شامل کرلیتی ہیں مگر حکومت میں آتے ہی شاید مرد ممبران سے خوفزدہ ہوکر انکی فلاح کیلئے اقدامات سے گریز کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کاویمن پیکج سوائے کاغذات کے کہیں نظر نہیں آتا۔ شازیہ عابدایڈووکیٹ نے کہا کہ میرا تعلق پنجاب کے سب سے پسماندہ ضلع راجن پور سے ہے وہاں عورت تو کیا مرد وں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے تاہم عورت کے حالات انتہائی قابل رحم ہیں وہ تعلیم تو کیا متوازن خوراک سے بھی محروم ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل کی ڈاکٹر اسماءممدوٹ نے کہا کہ ضلع ڈی جی خان میں صرف شک کی بنیاد پر کاری قرار دے کر قتل کردیا جاتا ہے یا جانوروں کی طرح فروخت کردیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش نے خواتین کو ترقی کے مواقع فراہم کرکے ترقی کی منازل طے کیں۔ مسلم لیگ ن کی دیبا مرزا ایڈووکیٹ اور کرن ڈار نے کہا کہ صوبے میں خواتین کے سماجی اور معاشی مقام کو بہتر بنانے کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے مثالی ویمن پیکج دیا ہے جس پر عملدرآمد کیلئے اقدامات جاری ہیں تاہم عورت کو معاشرے میں مقام کیلئے مخصوص مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہوگا۔ شرکت گاہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر خاور ممتاز نے کہا کہ عام عورت آج بھی مسائل کی چکی میں پس رہی ہے۔ عورت فاو¿نڈیشن کی ممتاز مغل اور نبیلہ شاہین نے کہا کہ قوانین پرعملدرآمد نہ ہونے سے قانون سازی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ خوش آئند ہے مگروہ عام عورت کی حالت زار سنوارنے کا دعویٰ پورا نہیں کر سکیں۔ خواتین ہوم بیسڈ ورکرز کی تنظیم ہوم نیٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ام لیلیٰ اظہر نے کہا کہ نصف آبادی کو ایمپاور کئے بغیر ملک کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہیں کیا جا سکتا، سیاسی جماعتیں ”ویمن رائٹس“ کو صرف نعرے کے طور پر استعمال نہ کریں بلکہ ”پولیٹیکل ول“ کے ذریعے انہیں عملی شکل دیں۔