ایک سو اکتالیس صفحات پرمشتمل اصغرخان کیس کا تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تحریرکیا ہے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ ڈاکٹرفقیرحسین نے تفصیلی فیصلہ پڑھ کرسنایا۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق نوے کے انتخابات شفاف نہیں تھے، دھاندلی کرکے سیاسی عمل کو آلودہ کیا گیا۔ اس وقت کے صدر،آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اختیارات کا ناجائزاستعمال کیا۔ سابق صدرغلام اسحاق خان نے آئین کی خلاف ورزی کی جبکہ مرزا اسلم بیگ اوراسد درانی فوج کی بدنامی کا باعث بنے ان کا یہ فعل انفرادی تھا جس میں ادارے شامل نہیں تھے۔ عدالت نے قرار دیا کہ انتخابات مقررہ وقت پر اور بلا خوف وخطر ہونے چاہییں۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کاکام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، الیکشن سیل بنانا نہیں۔ افسران ایوان صدر کے غیر قانونی احکامات ماننے کے پابند نہیں۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدرمملک ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی ایک گروپ کی حمایت کرے، ایوان صدرمیں سیاسی سیل غیر قانونی ہے۔ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو رقوم کی تقسیم کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیسے لینے والوں سے سود سمیت وصولی کرکے رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔ عدالت نے سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم بھی دیا۔ فیصلے میں بریگیڈئر حامد سعید کی ڈائری بھی شامل کی گئی ہے۔ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق اصغرخان کی پٹیشن کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی تھی اور کیس کا فیصلہ سولہ برس بعد رواں برس انیس اکتوبرکوسنایاگیا تھا۔
اصغرخان کیس: ایوان صدرمیں سیاسی سیل غیر قانونی ہے،اسلم بیگ اوراسدر درانی فوج کی بدنامی کا باعث بنے. پیسے لینے والوں سے سود سمیت رقم وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔
Nov 08, 2012 | 16:14