پاکستان میں تیار کیے جانے والے جوہری ہتھیار ڈیلیوری کے لیے تیار ہیں۔ بی بی سی ۔۔۔ باتیں بے بنیاد، شرانگیز اور فرضی ہیں۔ دفترخارجہ

Nov 08, 2013

 اسلا م آباد/لندن (بی بی سی + اے این این +  این این آئی) دفترخارجہ کے ترجمان  اعزاز احمد چوہدری نے پاکستان کے ایٹمی  پروگرام میں سعودی عرب کی  سرمایہ کاری  سے متعلق   برطانوی  میڈیا کی رپورٹ کو سختی سے مستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ بے بنیاد، شرانگیز اور فرضی ہے۔گزشتہ روز  بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں متعدد ذرائع کے حوالے سے  دعویٰ کیا گیا  تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور وہ جب چاہے پاکستان سے یہ ہتھیار حاصل کر سکتا ہے۔    پروگرام کے سفارتی اور دفاعی امور کے مدیر مارک اربن نے نیٹو کے ایک اعلیٰ اہلکار سے رواں برس کے آغاز میں اپنی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس افسر نے ایسی خفیہ رپورٹیں دیکھی تھیں جن کے مطابق سعودی عرب کے لیے پاکستان میں تیار کیے جانے والے جوہری ہتھیار ڈیلیوری کے لیے تیار ہیں۔  اسی پروگرام میں اسرائیلی فوج کے خفیہ محکمے کے سربراہ اموس یالدن کی سویڈن میں کی گئی پریس کانفرنس کا حوالہ بھی دیا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران جوہری بم حاصل کر لیتا ہے تو سعودی ایک ماہ کا بھی انتظار نہیں کریں گے۔ انہوں نے بم کے لیے پہلے ہی رقم ادا کر دی ہے  وہ پاکستان جائیں گے اور جو چاہتے ہیں، لے آئیں گے تاہم اسی پروگرام میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے امور پر امریکی صدر  اوباما کے سابق مشیرگیری سیمور نے اس خیال کو رد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ سعودی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ان کا ایسا کوئی تعلق ہے کہ کسی ہنگامی صورتحال میں وہ جوہری ہتھیار حاصل کر لیں گے۔   تاہم دفترخارجہ کے ترجمان نے اس رپورٹ پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے سعودی عرب  کے  پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں سرمایہ کاری  کرنے کی   سختی سے تردید کی ۔ انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے باتیں بے بنیاد، شرانگیز اور فرضی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے اور اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام انتہائی مضبوط اور ایکسپورٹ کنٹرول جامع ہے۔ انہوں نے کہاکہ کہ پاکستان کا جوہری پروگرام عالمی معیار اور عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے کے حفاظتی معیار کے مطابق ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے جوہری تعاون کے الزامات 1990 کی دہائی سے گردش کرتے  رہے ہیں۔    دفتر خارجہ  کے مطابق ایٹمی پروگرام  میں کسی دوسرے ملک  کی مالی مدد شامل نہیں یہ مکمل  طور پر پاکستانی ماہرین  کی کاوشوں  اور ملکی  دولت کا نتیجہ ہے  اور یہ ہتھیار کسی دوسرے  ملک کے حوالے نہیں  کئے جائیں گے۔

مزیدخبریں