دوشنبے (اے ایف پی+ این این آئی) تاجکستان کے رہنما امام علی رحمان بھاری اکثریت سے مزید سات برس کے لئے چوتھی بار صدر منتخب ہو گئے، ان کے مقابلے میں صرف ایک ہی مضبوط امیدوار تھیں اور انہیں بھی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ ووٹوں کی گنتی کے بعد سنٹرل الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ رحمان علی 83.6 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے، انہوں نے کہا گزشتہ روز ہونے والے انتخابات میں ٹرن آوٹ 86.6 فیصد رہا۔ انہوں نے کہا جمہوریہ تاجکستان کے صدارتی انتخابات قانون اور جمہوریت کے اصولوں کے مطابق، آزادانہ اور شفاف تھے۔ اکسٹھ سالہ امام علی رحمان 1992ء سے برسر اقتدار ہیں اور انتہائی سخت گیر انداز میں حکومت کر رہے ہیں۔ سابق سویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والے اس ملک میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات بھی سامنے آئے۔ علی رحمان کے مقابلے میں پانچ صدارتی امیدوار سامنے آئے تھے اور ملک میں یہ سب ہی غیر معروف تھے۔ حقیقی معنوں میں ماسکو حکومت کے حمایت یافتہ علی رحمان کے مدمقابل صرف ایک نامور وکیل اور انسانی حقوق کے لئے سرگرم خاتون نیکول بوبو نار سارووا ہو سکتی تھیں۔ ان کا تعلق اپوزیشن کی ’حزب نھیضت اسلامی تاجکستان‘ سے ہے تاہم انتخابی انتظامیہ ان کی نامزدگی کے لیے اکیس ہزار دستخط اکٹھے کرنے میں ناکام رہی تھیں اور اسی وجہ سے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ مل سکی۔ اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے غیرشفافیت کے الزام میں الیکشن کا بائکیاٹ کر دیا تھا۔