ملا فضل اللہ محسود سے زیادہ خطرناک پرتشدد رجحان کے مالک ‘میجر جنرل ثناء اللہ اور ملالہ پر حملے کرائے‘کیانی کو اگلا ہدف قرار دیا ‘عرف عام میں انہیں ’’ملا ریڈیو‘‘ بھی کہا جاتا ہے

Nov 08, 2013

پشاور (بی بی سی+ نیٹ نیوز) تحریک طالبان کے نئے سربراہ مولوی فضل اللہ تحریک کے سابق قائد حکیم اللہ محسود سے زیادہ خطرناک اور زیادہ پرتشدد رجحان کے مالک بتائے جاتے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے اور گذشتہ دنوں دیر بالا میں پاکستانی فوج کے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کے قتل کی ذمہ داری انہی کے جنگجوؤں نے قبول کی تھی۔ فضل اللہ 1974ء میں سوات میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی بابوکارخیل شاخ سے ہے اور ایک پاؤں سے معمولی معذور بھی ہیں۔ تحریک نفاذ شریعتِ محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ نے جہانزیب کالج سوات سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے تین درجوں تک دینی تعلیم حاصل کی ہے تاہم وہ زیادہ تر صوفی محمد کی صحبت میں رہے جہاں وہ درس و تدریس کے کاموں میں شرکت کرتے رہے۔ وہ انہی کے مدرسہ میں پڑھے ہیں۔ اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مولانا صوفی محمد مالاکنڈ ڈویژن سے ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ جنگ کے لیے افغانستان لے گئے جن میں مولانا فضل اللہ بھی شامل تھے۔ افغانستان سے واپسی پر فضل اللہ گرفتار ہوئے اور قریباً 17 ماہ تک جیل میں رہے۔ انہوں نے 2005 اور 2006 میں سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل شروع کیا جس کی وجہ سے انہیں بہت کم عرصے میں لوگوں میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس ایف ایم چینل پر مغرب خصوصاً امریکہ، حفاظتی ٹیکوں، لڑکیوں کی پڑھائی کے خلاف خطبے دیئے گئے۔ انہیں ’’ملا ریڈیو‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔  2006 میں ملا فضل اللہ نے علاقے میں ’شریعت‘ کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات بھی شروع کر دیے جس میں مقامی تنازعات کے فیصلے کرنا اور گلی کوچوں میں جنگجوؤں کا گشت شامل تھا۔ پھر بات حد سے بڑھتی گئی اور وادی میں خودکش حملوں، سکولوں پر حملے اور اِغوا کے واقعات میں اضافہ ہوا تو مقامی انتظامیہ نے مولوی فضل اللہ کے خلاف کارروائی کا ارادہ کیا جس کے بعد پھر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مشترکہ کارروائی شروع ہوئی۔ نومبر 2007 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ اکرم درانی نے وفاقی حکومت سے سوات میں فوج بھیجنے کی درخواست کی اور فوج محدود مینڈیٹ کے ساتھ سوات میں آئی۔ تاہم فوجی کارروائیوں کے دوران بھی خودکش حملے، سکولوں پر حملے اور اغوا کے واقعات ہوتے رہے۔ سرکاری دفاتر بہت حد تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ فضل اللہ نے سوات میں اپنی عدالتیں بھی قائم کر دیں۔ فروری 2009 میں خیبر پی کے کی حکومت نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنما صوفی محمد کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے مطابق حکومت سوات اور مالاکنڈ سمیت آٹھ اضلاع میں متوازی نظامِ عدل ’شرعی عدالتیں‘ قائم کرنا تھا۔ اس کے بدلے میں صوفی محمد نے مولانا فضل اللہ کو تشدد سے باز رہنے کے لیے کہنا تھا تاہم مولانا صوفی محمد اپنے داماد مولانا فضل اللہ کے مسلح طالبان کے سامنے بے بس دکھائی دیئے اور وہ معاہدے اور وعدے کے مطابق طالبان کو غیر مسلح کرنے اور انہیں متوازی حکومت چلانے سے روکنے میں ناکام رہے۔ مئی 2009 میں پاک فوج نے سوات میں فیصلہ کن کارروائی شروع کی تو ضلع کے بیشتر مقامات سے مولانا فضل اللہ کے حامی عسکریت پسندوں کو شکست کے بعد نکال دیا گیا۔ اسی کارروائی کے دوران مولانا فضل اللہ اچانک غائب ہوگئے اور بعد میں انہوں نے بی بی سی کو ٹیلی فون کر کے افغانستان چلے جانے کی تصدیق کی۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق فضل اللہ سمیت دیگر شدت پسندوں نے افغانستان کے علاقوں کنڑ اور نورستان میں محفوظ ٹھکانے بنا لئے تھے اور افغانستان میں ان کے قیام کے دوران افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقے دیر میں سکیورٹی فورسز پر سرحد پار سے ہونے والے متعدد حملوں میں مولانا فضل اللہ کے گروپ کا نام سامنے آتا رہا ہے۔ افغان اور نیٹو فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں بھی سامنے آتی رہیں لیکن یہ سب بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔ ملا فضل اللہ کی آخری ویڈیو کچھ عرصہ پہلے سامنے آئی جس میں انہوں نے نہ صرف پاکستانی فوج کے میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کو مارنے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اپنا اگلا ہدف بھی قرار دیا تھا۔ مبصرین کے خیال میں فضل اللہ کا نیا امیر مقرر ہونے کے بعد پاکستان میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ 2007ء میں لال مسجد آپریشن کے واقعہ کے وقت ملا فضل اللہ کی حامی فورسز اور بیت اللہ محسود کی تحریک طالبان نے باہمی اتحاد بھی کیا تھا۔ 

مزیدخبریں