لاہور (فرخ سعید خواجہ) سابق صدر و سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف خوش قسمت شخص ہیں کہ انہوں نے بحیثیت آرمی چیف جس منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹا تھا اس شخص نے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم منتخب ہو جانے کے باوجود پرویز مشرف کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی بلکہ ان کی قسمت کا فیصلہ عدالتوں پر چھوڑ دیا۔ وزیراعظم نواز شریف بدلہ لینا چاہتے تو ان کو اختیار حاصل تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلاتے لیکن انہوں نے اپنی خاندانی اور ذاتی شرافت کا مظاہرہ کیا۔ یہ بھی درست ہے کہ ’’فوج کو خاندان‘‘ سمجھنے والے فوجیوں کی پرویز مشرف کو ہمدردی حاصل تھی۔ عدالتوں سے اپنے خلاف مقدمات میں ضمانت کے بعد رہا ہو کر پرویز مشرف واپس بیرون ملک چلے جاتے ہیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ ایک طے شدہ بین الاقوامی ایجنڈے کے مطابق پاکستان آئے تھے اور عدالتوں سے ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جانا معمول کی کارروائی ہو گا۔ سو وہ وطن سے باہر جا کر حسب سابق لیکچر دے کر مال کمائیں گے اور سیاست بھی کرتے رہیں گے۔ اس کے برعکس پرویز مشرف پاکستان میں رہ کر سیاست کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کا یہ قدم جوانمردی کہلائے گا۔ اس کا مطلب ہو گا کہ وہ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان آئے تھے۔ پرویز مشرف کے بیرون ملک چلے جانے سے ان کا غیر ملکی کٹھ پتلی ہونا ثابت ہو جائے گا اور امکان موجود رہے گا کہ اس کٹھ پتلی کو مستقبل میں پاکستان کے سر تھوپا جا سکے۔