پائیدار تعلقات کیلئے کابل انتظامیہ کو خلوص کی آمیزش بڑھانا ہو گی

کابل میں آرمی چیف کی افغان سیاسی‘ عسکری قیادتوں اور ایساف کمانڈر سے ملاقاتیں اور دوطرفہ یقین دہانیاں

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے دورۂ افغانستان کے دوران گزشتہ روز کابل میں افغان صدر اشرف غنی‘ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ‘ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حنیف اتمار‘ وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی اور چیف آف جنرل سٹاف جنرل شیرمحمد کریمی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور خطے کی سکیورٹی کی صورتحال پر ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ کابل میں قیام کے دوران انہوں نے ایساف کمانڈر سے بھی ملاقات کی۔ اس سے قبل قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز بھی اپنے دورۂ کابل میں افغان قیادت سے ملاقات کر چکے ہیں۔ افغان صدر اور دوسری قیادتوں سے ملاقات کے دوران جنرل راحیل شریف نے اس امر کا اظہار کیا کہ مستحکم افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے اور دہشت گردی کو ایک مشترکہ خطرہ تصور کرتے ہوئے کارروائی عمل میں لانے کی ضرورت ہے جبکہ دہشت گردی کے خاتمہ کی مشترکہ کاوشوں سے علاقائی امن کو یقینی بنانے کا بھی راستہ نکلے گا۔ اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے یقین دلایا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائیگا اور وہ پاکستانی قیادت سے ملاقات کیلئے جلد پاکستان کا دورہ کرینگے۔ انکے بقول پاکستان ہمارا برادر ملک ہے جس نے لاکھوں افغانوں کو پناہ دے کر جو احسانات کئے‘ افغان اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ خطے میں امن دونوں کے مفاد میں ہے۔
اس وقت چونکہ نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلاء کا عمل آخری مراحل میں ہے اور نیٹو لزبن سربراہی کانفرنس کے فیصلہ کے تحت اس سال دسمبر کے اختتام تک نیٹو فورسز کا افغانستان سے انخلاء مکمل ہونا ہے اس لئے اس مرحلہ پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورۂ افغانستان علاقائی امن و امان کی بحالی سے متعلق حکمت عملی طے کرنے کے معاملہ میں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر آرمی چیف الگ سے افغانستان کا دورہ کرنے کے بجائے اعلیٰ سیاسی حکومتی قیادتوں کے ہمراہ آتے تو اس دورے کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوتی کیونکہ ہمارے ملک میں فوجی آمریتوں کے بار بار مسلط ہونے کے باعث سول اتھارٹیز سے متعلق معاملات میں فوج کے عمل دخل کو اسی پس منظر میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس تناظر میں اگر آرمی چیف سرتاج عزیز کے ہمراہ افغانستان کے دورے پر جاتے یا وزیراعظم نوازشریف کے آنیوالے دورہ افغانستان کے ساتھ ہی ان کا دورہ بھی شیڈول ہو جاتا تو افغان قیادتوں کے ساتھ حکومتوں کی سطح پر طے پانے والے معاہدوں کا زیادہ اثر ہوتا۔ اسکے باوجود تنہاء آرمی چیف کا دورۂ افغانستان خطے کی موجودہ سکیورٹی کی صورتحال میں ہرگز کم اہمیت کا حامل نہیں‘ بالخصوص اس دورے میں انکی ایساف کمانڈر سے بھی ملاقات ہوئی ہے جس میں لازمی طور پر افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد علاقائی امن و امان کی بحالی کو یقینی بنانے کی حکمت عملی پربھی ٹھوس بات چیت ہوئی ہو گی۔
بدقسمتی سے برادر پڑوسی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے مابین کبھی مثالی برادرانہ تعلقات استوار نہیں رہے اور کرزئی کے دور حکومت میں تو پاکستان کے ساتھ بلاوجہ کی دشمنی مول لینے کے بار بار مواقع نکالے جاتے رہے ہیں۔ حالانکہ دہشت گردی کی جنگ میں امریکی اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان اور افغانستان کے مابین تو ویسے ہی مثالی تعلقات ہونے چاہئیں تھے اور باہمی تعاون افغانستان کیلئے زیادہ سودمند تھا مگر کرزئی نے عملاً بھارتی ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے خطے میں بھارتی بالادستی کے امریکی ایجنڈے کو فروغ دینے کیلئے پاکستان پر دہشت گردوں کے تحفظ کے الزامات عائد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس سے بھارتی مقاصد تو پورے ہوتے ہی رہے‘ پاکستان کے ساتھ امریکہ کی بداعتمادی کی فضا بھی استوار ہوئی جس کا اظہار امریکہ کی جانب سے اسامہ بن لادن کیخلاف ایبٹ آباد اپریشن سے اب تک حیلے بہانے سے کیا جا رہا ہے اور کرزئی حکومت کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہی امریکی وزارت دفاع نے اس خطے کی سکیورٹی کے حوالے سے اپنی جو ششماہی رپورٹ جاری کی ہے‘ اس میں بھی پاکستان پر دہشت گردوں کو تحفظ دینے کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے خطے میں بھارت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور یہ بے سروپا الزام بھی پاکستان پر دھر دیا گیا ہے کہ اسکی سرزمین افغانستان اور بھارت میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ اس بے سروپا الزام تراشی کیلئے بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب سے دو روز قبل کابل میں بھارتی قونصل خانے میں ہونیوالی دہشت گردی کو جواز بنایا گیا جس میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام خود افغان صدر کرزئی نے مودی کے ساتھ وزیراعظم نوازشریف کی ملاقات سے ایک روز قبل عائد کیا گیا جبکہ انکے اس الزام کو ہی بنیاد بنا کر مودی نے دوران ملاقات میاں نوازشریف پر دراندازی کے الزامات کی بوچھاڑ کی اور خیرسگالی کی اس ملاقات کو یکطرفہ محاذآرائی والی ملاقات میں تبدیل کیا۔ مودی کے اس طرزعمل کے ساتھ ہی دوستی کی جانب گامزن پاکستان بھارت تعلقات یکسر تبدیل ہو گئے اور مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ کشیدگی انتہاء تک پہنچا دی جس سے علاقائی ہی نہیں‘ عالمی امن و سلامتی پر بھی خطرے کی نئی تلوار لٹک گئی۔ اب امریکی پینٹاگون کی رپورٹ کے بعد پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کیخلاف بھارتی ہی نہیں‘ امریکی عزائم بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں اور بظاہر یہی محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ نے اس خطے میں چین کی بالادستی کی ہموار ہوتی فضا کے توڑ کیلئے کابل حکومت کو اپنا مہرہ بنا کر پاکستان اور چین کے مابین دراڑیں پیدا کرنے اور بھارتی علاقائی بالادستی کی راہ ہموار کرنے کا سازشی منصوبہ بنایا ہے جس کی واضح جھلک پینٹاگون کی رپورٹ میں نظر آتی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ کرزئی اپنے اقتدار کی دونوں ٹرموں کے دوران اسلام آباد کے ساتھ اچھے تعلقات اور افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کراتے رہے مگر عملی طور پر وہ پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف رہے اور پاکستان سے فرار ہونیوالے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دے کر ان سے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر منظم حملے بھی کراتے رہے جو یقیناً ان سے زیادہ بھارت کا ایجنڈہ تھا۔
اب کرزئی کا اقتدار ختم ہونے اور افغانستان میں نئے طرز کی حکمرانی قائم ہونے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے مابین پہلے والی کشیدگی اور سردمہری ختم ہونے اور علاقائی مفادات کے تناظر میں دوطرفہ باہمی تعاون کی فضا ہموار ہونے کے آثار پیدا ہوئے ہیں جس کا عندیہ خود افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی جانب سے دیا جا رہا ہے تو سیاسی اور عسکری سطح پر اسلام آباد اور کابل کی قیادتوں کی باہمی ملاقاتوں اور باہمی تعاون کے امور پر تبادلۂ خیال کے مستقبل قریب میں مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں آرمی چیف کے دورۂ افغانستان کو محض رسمی دورے کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا اور آرمی چیف نے جس شدومد کے ساتھ افغان قیادت کے سامنے ملا فضل اللہ کا معاملہ اٹھایا ہے جس کے باعث افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دینے کا یقین دلایا ہے تو توقع رکھی جانی چاہیے کہ اب پاکستان کے معاملہ میں کابل انتظامیہ کا ماضی والا رویہ برقرار نہیں رہے گا۔ چونکہ نئی کابل انتظامیہ کو نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد آئندہ سال اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے محفوظ کرنے کے ٹھوس اقدامات ہر صورت بروئے کار لانے ہیں تاکہ نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد بھی افغانستان میں امریکی افواج کو موجود رکھنے کا جواز ختم ہو سکے تو اس مقصد کیلئے اسے بہرصورت پاکستان کے تعاون کی ضرورت پڑیگی جس کیلئے آرمی چیف ہی نہیں‘ وزیراعظم نوازشریف بھی کابل انتظامیہ کو یقین دلا چکے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان اور افغانستان میں دفاعی اور سکیورٹی سے متعلق معاملات میں تعاون کی راہیں استوار ہونگی تو لازماً اس سے باہمی اعتماد بھی بڑھے گا جو ہر فیلڈ میں دوطرفہ تعاون اور بھائی چارے کی فضا استوار کریگا مگر باہمی تعاون کے یہ عہدوپیماں ماضی کی طرح محض رسمی نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر دوطرفہ تعاون کیلئے خلوصِ نیت کے ساتھ ایک دوسرے کی جانب قدم بڑھایا جائے تو پاکستان اور افغانستان اس خطے میں امن و خوشحالی اور علاقائی استحکام کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ تاہم کابل انتظامیہ نے ماضی جیسی بغل میں چھری منہ میں رام رام والی پالیسی برقرار رکھی تو پھر نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کا قیام افغانستان کی مجبوری بنا رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن