چودھری نثار علی خاں کا پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنیکے حوالے سے یورپی یونین کیساتھ معاہدہ معطل کرنیکا دلیرانہ اقدام

حکومت دنیا سے وطن عزیز کی آزادی و خودمختاری اور اپنے شہریوں کی آبرومندی تسلیم کرائے
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے برطانیہ کے سوا یورپی یونین سے ’’غیرقانونی تارکین وطن‘‘ کے نام پر پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کے معاہدے پر عملدرآمد گذشتہ روز وقتی طور پر روک دیا۔ انہوں نے باور کرایا کہ پاکستانیوں کو بلاجواز ڈی پورٹ کرنے والے جہاز کو پاکستان کی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہفتے کے روز اسلام آباد ٹریفک پولیس کے ہیڈآفس میں تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک سے دہشت گردی میں ملوث ہونے والے پاکستانیوں کو واپس لینے کا معاہدہ ہوا تھا مگر بعض ممالک اس معاہدے کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس پر اس ملک میں ہی مقدمہ چلنا چاہئے۔ دنیا میں پاکستانیوں پر بغیر کسی تحقیق کے دہشت گردی کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ ہم پاکستانیوں کے خلاف یہ توہین آمیز سلوک برداشت نہیں کر سکتے، صرف داڑھی رکھ لینا یا حجاب کرنا کوئی دہشت گردی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ پاکستان میں کوئی چھوٹا واقعہ بھی ہوتا ہے تو واویلا مچا دیا جاتا ہے جبکہ بھارت میں طوفان برپا ہو جائے تو بھی عالمی برادری اور امریکہ کچھ نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری تمام ممالک کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرے گی تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔ ان کے بقول انہوں نے یہ معاملہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے سامنے بھی اٹھایا ہے کہ پاکستان میں چھوٹا سا واقعہ بھی ہو تو عالمی برادری اسے بہت اٹھاتی ہے جبکہ بھارت میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں پر عالمی برادری کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا۔
یہ مسلمہ آفاقی اصول ہے کہ کسی بھی قانون کی تشکیل میں شرف انسانیت کی پاسداری کو فوقیت دی جاتی ہے اور ریاستوں کے ریاستوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے طے پانے والے معاہدوں پر بھی یہی آفاقی اصول لاگو ہوتا ہے۔ اسی طرح بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے بھی شرف انسانیت کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے 1945ء کے وضع کردہ انسانی حقوق کے چارٹر میں بھی بلاامتیاز رنگ، نسل اور مذہب تمام انسانوں سے مساوی سلوک ترجیح اول قرار دیا گیا ہے۔ یہی درس رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فتح مکہ کے بعد اپنے آخری خطبہ حج میں دیا جو انسانی برادری کے ضابطۂ حیات کا بنیادی جزو ہے جس کے تحت کسی گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں جبکہ مذہب کا یہ آفاقی اصول ہے کہ کسی کے مذہب کو چھیڑو نہ اور اپنے مذہب کو چھوڑو نہ۔ مگر بدقسمتی سے دنیا نے مسلمانوں کے حوالے سے دوہرے معیارات قائم کر رکھے ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کے گٹھ جوڑ اور طے شدہ ایجنڈے کے تحت مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو شعار بنا لیا گیا ہے۔ بالخصوص غیر مسلم معاشروں میں تو مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ انسانوں کے مابین امتیاز کی مذہب اجازت دیتا ہے نہ انسانیت۔ اس تناظر میں اگر مغربی یورپی ممالک اور بھارت میں محض مسلمان ہونے کے ناطے اپنے شہریوں اور دوسرے ممالک سے روزگار و سیاحت کے سلسلہ میں آئے باشندوں کے معاملہ میں امتیازی قوانین اور پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں تو یہ احکام خداوندی اور ذاتِ باری تعالیٰ کے مبعوث کردہ انبیاء کی تعلیمات کی بھی نفی ہے اور انسانی حقوق سے متعلق آفاقی عالمی اصولوں اور قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اگر گلوبل ولیج میں انسانی برادری نے آبرومندی کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو اسے خُلق، بھائی چارے، صلہ رحمی اور باہمی رواداری کے اصول اپنانا ہوں گے اور پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ پر کاربند ہونا ہو گا۔
بین الریاستی تعلقات کے معاملہ میں یو این چارٹر تو چھوٹے اور بڑے ملک میں بھی امتیاز نہیں کرتا چہ جائیکہ کہ چھوٹے، بڑے، کمزور و توانا اور مسلم و غیر مسلم کے ناطے انسانوں میں امتیاز روا رکھا جائے، اگر کوئی ملک چھوٹا ہے تو اس کی آزادی اور خودمختاری بھی مقدم ہے۔ اسی طرح کوئی اسلامی معاشرہ ہے تو اس کے دین و مذہب کا احترام بھی پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کی بنیاد پر لازمی ہے مگر بدقسمتی سے مغربی یورپی ممالک میں جہاں غیر مسلم قوتوں کا غلبہ ہے مسلمانوں کے حوالے سے شرف انسانیت کے سارے اصول اور تقاضے فراموش کرکے ان کے ساتھ ہر معاملے میں امتیازی سلوک روا رکھنا ہی شعار بنا لیا گیا ہے۔ اس سوچ کو امریکی نائن الیون کے واقعہ کے بعد زیادہ تقویت حاصل ہوئی جس کی بنیاد پر امریکہ نے اپنے حلیف نیٹو ممالک کے تعاون سے خلیج اور ہمارے خطے میں دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ شروع کی تو مسلم کش سوچ کی بنیاد پر شعائر اسلامی پر کاربند ہر مسلمان پر دہشت گرد کا لیبل لگانے کے رجحان نے تقویت حاصل کی جبکہ دہشت گردی کی جنگ شروع کرنے والے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے تو اسے صلیبی جنگ کا نام بھی دے دیا جو ان کی مسلم دشمنی کا بین ثبوت تھا۔ اس وقت بدقسمتی سے پاکستان میں جرنیلی آمر مشرف کی حکمرانی تھی جنہوں نے اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر پاکستان کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی بنایا اور دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے امریکہ کے طے کئے گئے ہر اصول اور وضع کئے گئے ہر قانون کی پابندی کو بھی اپنا شعار بنا لیا۔ یورپی یونین کے ساتھ دہشت گردی کے محض شبہ پر تارکین وطن کو ڈی پورٹ کرنے کا معاہدہ بھی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی بننے کا ہی شاخسانہ ہے جس کے تحت امریکہ، برطانیہ سمیت تمام یورپی ممالک اور مغربی دنیا میں پاکستانیوں کی دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت کو قبول کرکے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا راستہ خود ہی نکالا گیا چنانچہ امریکی نائن الیون کے بعد اب تک ان ممالک میں ہر پاکستانی باشندہ مشکوک ہی سمجھا جاتا ہے جبکہ باریش پاکستانی مردوں اور حجاب میں رہنے والی پاکستانی خواتین کو دوسرے درجے کا شہری ہی نہیں، عملاً دہشت گرد سمجھ کر ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور متذکرہ ممالک کی شہریت حاصل کرنے والے پاکستانی باشندے بھی وہاں کے قوانین کے تحت دوسرے درجے کے شہری بن کر ہی رہتے ہیں جنہیں پاکستان سے آنے اور مسلمان ہونے کے ناطے نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور یورپی ممالک تارکین وطن کے زمرے میں آنے والے کسی بھی پاکستانی باشندے کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے ملک سے نکالنے کا حق تارکین وطن کو ڈی پورٹ کرنے کے متذکرہ معاہدے کے تحت ہی استعمال کرتے ہیں جس کی روشنی میں روزگار اور کاروبار کے لئے متذکرہ ممالک میں گئے پاکستانیوں کی وہاں نہ عزت نفس محفوظ ہے نہ مستقبل، جبکہ اب بھارت میں تو مودی سرکار کی پالیسی کے تحت مسلمان ہونا بھی جرم بنا دیا گیا ہے اور ہندو مذہب کی توہین کے محض شبے پر بھی مسلمانوں کو قتل کرنا اپنا حق بنا لیا گیا ہے جس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ یورپ اور مشرق کی مسلم دشمن قوتوں نے ایک منظم سازش اور ایجنڈے کے تحت توہین مذہب اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں۔ اس لئے بھارت میں انتہا پسند جنونی ہندوئوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی چاہے جو بھی درگت بنتی رہے یورپی، مغربی دنیا میں انسانی حقوق کی عملداری حرکت میں نہیں آتی اور الٹا دہشت گردی کے الزامات کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیا جاتا ہے۔
اس تناظر میں بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے نوٹس لیا ہے اور یورپی یونین کو باور کراتے ہوئے تارکین وطن کو ڈی پورٹ کرنے سے متعلق معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے تو وزارت داخلہ کو اب اس پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے اور ہماری خارجہ پالیسیوں میں بھی ملک کی آزادی و خود مختاری اور اپنے شہریوں کی آبرومندی کا عنصر غالب نظر آنا چاہئے۔ اگر امریکہ نے یو این چارٹر اور عالمی قوانین کے باوصف اپنی سلامتی کے تحفظ کے نام پر کسی دوسری ریاست پر ڈرون حملے کرنا اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا بھی اپنا حق بنا لیا ہے تو ہمارے حکمرانوں کو بھی دنیا میں اپنی آزادی و خود مختاری اور اپنے شہریوں کی عزت و آبرو کی پاسداری کرانی چاہئے۔ بھارت تو ویسے ہی ہمیں دنیا میں تنہا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے اس لئے ہمارے حکمرانوں کی عدم فعالیت کے نتیجہ میں کوئی بعید نہیں کہ عالمی قوانین میں پاکستانی اور مسلمان ہونا جرم بنا دیا جائے۔ چودھری نثار علی خان نے دنیا میں پاکستانیوں کی تکریم کا علم اٹھایا ہے تو اب اسے سرنگوں نہیں ہونے دینا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن