گیارہ نومبر کو بھارت سمیت دنیا بھر میں موجود ہندو ”دیوالی“ کا تہوار منائیں گے لیکن بھارت سرکار کے لئے آنے والی دیوالی اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ تاریخ میں پہلی بار بھارت کا کوئی حکمران ”دیوالی“ کو بیرون ملک سفارت کاری کے طور پر استعمال کرے گا۔ داخلی طور پر بھارت میں حالیہ دنوں میں ہندو انتہا پسندی کے پے درپے واقعات‘ بھارتی دانشوروں‘ ادیبوں اور اداکاروں کی طرف سے بطور احتجاج تمام سرکاری ایوارڈ واپس کرنے جیسے اقدامات کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ بھارتی وزیراعظم اپنے شیوہ سینا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو لگام دیں گے یا کم از کم گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر مسلمانوں کو قتل کرنے جیسے ظالمانہ واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کریں گے مگر ہندو انتہا پسندوں کے کرتوتوں پر گرفت کرنے کی بجائے اس پر سابق حکمران جماعت کانگرس کے احتجاج پر اُلٹا یہ کہ انہیں جھاڑ پلا دی کہ سکھوں کا قتل عام کرنے والی جماعت کانگرس ہمیں رواداری اور برداشت کا لیکچر دینا بند کرے۔ کانگرس کو یاد دلایا کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگرس نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے سکھوں کا قتل عام کرایا تھا۔ جس میں متاثر ہونے والے سکھ خاندان آج تک انصاف و دادرسی کو ترس رہے ہیں۔ نریندرہ مودی کے اس جواب نے ایک طرف کانگرس کو مایوس کیا تو دوسری طرف سکھوں کے زخم بھی ہرے ہو گئے جنہیں 31 اکتوبر 1984ءکی صبح دن چڑھے دو سکھ حفاظتی گارڈز کے ہاتھوں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد مسلسل چار روز تک پورے بھارت میں قتل عام سے نوازا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد (جسے جون 1984ءمیں اندرا گاندھی کی طرف سے امرتسر میں سکھوں کی مرکزی عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر ”آپریشن بلو سٹار“ کے نام پر فوج کشی کا ردعمل قرار دیا گیا تھا) کانگرس جماعت کے وزیر و ممبران اسمبلی ازخود سکھوں کے قتل عام کی نگرانی کرتے رہے اور اس کے لئے باقاعدہ سکھ آبادیوں و کاروباری مراکز کی درست نشاندہی کے لئے میونسپل کارپوریشن و ضلعی حکومتوں کے ریکارڈ سے خصوصی مدد لی گی۔ بعین اسی طرح نریندرہ مودی کی قیادت میں 27 فروری 2002ءکے روز گودھرا ریلوے سٹیشن پر ہندو یاتریوں سے بھری دو بوگیوں میں لگنے والی آگ کے بعد مرنے ولے ہندو¶ں کا بدلہ لینے کے لئے گجرات میں کئی روز تک مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ مسلمان عورتوں کو آبروریزی کے بعد زندہ جلایا گیا۔ کم سن و نومولود بچوں کو ترشول نما ہتھیاروں میں پرو کر اچھالا گیا۔ گجرات کے بعد تین ہفتے تک احمد آباد میں مسلمانوں کے خون سے پیاس بجھائی گئی۔ یوں فسادات کے نام پر مزید تین مہینوں تک بھارت کے مختلف شہروں میں مسلمانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رہا جہاں بھی مسلمان نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کرتے اس کا جواب انہیں مزید قتل و غارت گری کی شکل میں ملتا۔
گو سونیا گاندھی نے راہول گاندھی‘ کانگرس کے دیگر لیڈروں اور ورکروں کے ہمراہ نریندرہ مودی کی طرف سے ملنے والے تلخ مگر حقائق پر مبنی جواب کے ردعمل میں 3 نومبر کو نیو دہلی میں احتجاجی ریلی نکالی اور ایوان صدر کے باہر بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی کے خلاف پرزور مذمتی تقریر بھی کی لیکن بھارت میں حکومت اور اپوزیشن کے ایک دوسرے پر الزامات نے ثابت کر دیا کہ وہاں برسر اقتدار کانگرس ہو یا بی جے پی اصل راج ہمیشہ انتہا پسندوں کے کنٹرول ہی میں رہا۔ جس پر سیکولرازم کا نقاب چڑھا رہتا تھا۔ اس فرق کے ساتھ کہ نریندرہ مودی نے برسر اقتدار آتے ہی سیکولر ازم کا نقاب نوچ پھینکا ہے۔ نریندرہ مودی کے کانگرس جماعت کو دئیے گئے جواب سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کو بھارت کے طول و عرض میں اپنے انتہا پسندانہ رویے کے خلاف ہونے والے احتجاج سے کوئی غرض نہیں۔ البتہ اس احتجاج کے بیرونی دنیا پر پڑنے والے منفی اثرات کو زائل کرنے کے لئے سفارت کاری کو نیا رنگ دینے کی حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔ نریندرہ مودی کی طرف سے چند روز بعد 13 نومبر کو لندن میں دیوالی منانے کا پروگرام اس حکمت عملی ہی کا حصہ ہے۔ بھارت سرکار کے دو اہم وزیر اور بی جے پی و شیوہ سینا کے کچھ لوگ گزشتہ ایک مہینے سے لندن میں موجود ہیں جہاں یورپ کے سب سے بڑے اور فٹ بال کے حوالے سے مشہور ویمبلے سٹیڈیم میں مغربی ممالک کی تاریخ میں آتش بازی کے سب سے بڑے مظاہرے کا اہتمام کیا جا رہا ہے جسے دیوالی کا رنگ دیا جائے گا۔ نریندرہ مودی کے مذکورہ دورے کو جمہوریت کی دنیا میں سب سے بڑے ہیرو کی برطانیہ آمد کا رنگ دینے کے لئے برطانوی اخبارات میں خصوصی مضامین لکھوائے جا رہے ہیں تقریب میں برطانوی وزیراعظم‘ ان کی کابینہ کے کچھ وزراءکے علاوہ برطانیہ میں تعینات مختلف ملکوں کے سفیر اور ہائی کمشنر بھی 13 نومبر کو ویمبلے سٹیڈیم میں نریندرہ مودی کے ہمراہ دیوالی سے لطف اندوز ہونگے۔ برطانوی اہم و اعلیٰ حکومتی عمائدین کی شرکت کے حوالے سے ”ٹو گریٹ نیشنز“ ون گلوریئس فیوچر“ کے عنوان سے خصوصی نعرے تشکیل دئیے گئے ہیں۔ نریندرہ مودی اور ان کے دیگر حواری مطمئن ہیں کہ 13 نومبر کو منعقد کی جانے والی دیوالی کی تقریب اور برطانیہ کے کامیاب دورے کی بدولت بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے خلاف جاری احتجاج اپنی موت آپ مر جائے گا علاوہ ازیں نریندرہ مودی سرکار کے اقدامات کو (جنہیں انتہا پسندی کا نام دیا جا رہا ہے) بھی عالمی سطح پر سند حاصل ہو جائے گی۔ تقریب کے دوران اپنی تقریر میں اور اس سے ہٹ کر برطانوی حکام سے ملاقاتوں کے دوران نریندرہ مودی پاکستان کی بھارت میں دہشت گردی کے ثبوت فراہم کریں گے اور بتائیں گے کہ کس طرح سرحد پار پاکستان میں قائم دہشت گردوں کی تربیت کے لئے قائم کیمپ بھارت کی سلامتی کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت کی ان تمام تیاریوں اور اس کی پاکستان کے خلاف جاری تمام تر جارحانہ حکمت عملی کے باوجود ہمارا معذرت خواہانہ طرز عمل تبدیل نہیں ہوا۔ ہم نے پھر سے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور ہمارے حکمرانوں کا یہی معذرت خواہانہ رویہ ہی ہے کہ وہ ہر بار پاکستان کی طرف سے امن و دوستی کی پیشکش کو رعونت کے ساتھ جھٹک دیتا ہے۔