معرکہِ اسلام آباد ، سود و زیاں کے درمیان!

(1) عمران خان کا ملین مارچ اور مجوزہ دھرنا اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے ۔ کون جیتا ، ہار کس کی ہوئی ؟ اس پر تبصرے اور بحث ایک طویل عرصہ تک ہوتی رہے گی ۔ حکومتی وزرا کی فوج ایک ہی راگ الاپ رہی ہے۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرہ تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
دس لاکھ چھوڑ دس ہزار آدمی بھی اسلام آباد نہیں پہنچ پائے ۔ دبنگ خان بڑی حیرت اور بے بسی کے ساتھ اپنے جانثاروں کو بنی گالہ میں پٹتے ہوئے دیکھتا رہا ۔ اس میں اتنی ہمت اور حوصلہ نہ تھا کہ باہر نکل کر پولیس کے بڑھتے ہاتھ روکتا ۔ سرحدی آندھی صوابی سے اٹھی تو ضرور لیکن حضرو کے قریب نسوار پھانک کر واپس چلی گئی ۔ خٹک ہل من مبارز کہہ کر میدانِ کارزارنہیں اترا تھا ۔ اس نے بیانگ دہل اعلان کیا تھا کہ وہ بنی گالا میں محصور خان اور اسکے ’’برگر‘‘ ساتھیوں کو رہا کرائے گا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ امیدیں ، امنگیں اور ارادے آنسو گیس کے سامنے دم توڑ گئے وہ اور ان کے رفقا سرپر پائوں رکھ کر بھاگ گئے ۔ برگرز اور برگر کنگ انتظار ہی کرتے رہے خان نے عدالت عظمیٰ کی تجویز پر با امر مجبوری لبیک کہا ہے ۔
خان کا استدلال یہ ہے کہ فتح حق کی ہوئی ہے ۔ اس نے واضح اعلان کیا تھا کہ میاں نواز شریف استعفیٰ دیں یا تلاشی دیں ۔ تلاشی کا مقصد یہ تھا کہ وزیراعظم اپنے آپکو احتساب کیلئے پیش کریں ۔ سپریم کورٹ میں حکومت نے اپنی صفائی پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ گویا خان کا مطالبہ مان لیا گیا ہے ۔ اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا ۔ پانی میں روانی ہو گی ۔ حالات کا تندو تیز دھارا حکومت کو بہا کر لے جائیگا ۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق حکمران ایک دوسرے سے پوچھیں گے ، جائوں کدھر کو میں؟
(2 ) ہم نے اپنے سابقہ کالموں میں خان کو متنبہ کیا تھا کہ اس مرتبہ حکومت کی حکمت عملی کچھ اور ہو گی ۔ خان کو محفوظ راستہ نہیں دیا جائیگا۔ میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کا مارچ ناکام بنانے کیلئے جو اقدامات کئے تھے وہی حربے خان پر آزمائے جائینگے ۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو گھر سے باہر ہی نہیں نکلنے دیا جائیگا ۔ سڑکوں پر ناقابل عبور رکاوٹیں کھڑی کی جائینگی پکڑ دھکڑ ہو گی اور خان کو نظر بند کر دیا جائیگا ۔ کسی سیاسی پارٹی نے کھل کر ساتھ نہیں دیا ۔ پیپلز پارٹی کا مستقبل اور مفادات حکومت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ زیرک زرداری کو ادراک ہو گیا ہے ایک طویل عرصہ تک وہ مرکز میں حکومت نہیں بنا سکتے ۔ لہٰذا ان کی سوچ کے قافلے سندھ سے شروع ہو کر سندھ پر ہی ختم ہو جاتے ہیں ۔ میاں صاحبان کے ساتھ ایک ’’شریفانہ‘‘ سمجھوتہ ہو گیا ہے ۔ اِدھرہم ، اُدھر تم ہی تم ۔ بلاول کے جذباتی بیانات نیٹ پریکٹس ہیں ۔ عزیزی و اشگاف الفاظ میں جو بیان دیتا ہے خورشید شاہ اس پر خطِ تسیخ پھیر دیتے ہیں ۔ عمران خان نے انہیں ڈبل شاہ کہا ہے در حقیقت یہ اس کیلئے Trouble شاہ ہیں ۔ کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ وزیراعظم کے مشیر خصوصی ہیں جو وقتاً فوقتاً میاں صاحب کو اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں ۔ اب کے دور کی کوڈی لائے ہیں ۔ فرماتے ہیں ، عمران خان اپنی حرکتوں سے میاں نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے ۔ ہلکی پھُلکی موسیقی اور شگوفے تو پہلے بھی چھوڑتے رہتے تھے ۔ اب کے قبلہ شاہ صاحب نے راگ درباری گایا ہے ۔ پہلے دھرنے کے مخالف تھے اب دھرنا ختم کرنے پر سیخ پا ہیں ۔ انہیں احساس ہو چکا ہے کہ عدالتی ’’کھُرا‘‘ زرداری اور انکی ذات تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ جو باتیں زیر لب اور ذو معنی انداز میں کرتے تھے وہ اب کھل کر کی ہیں ۔ حتی المقدور عمران کا راستہ روکیں گے اور عدالت میں حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونگے ۔ عمران خان نے دھرنا ختم کر کے کئی لوگوں کی روزی پر لات ماری ہے ۔ وہ جو میاں صاحب کو کہتے تھے نرخ بالا کن کہ ازدانی ہنوز انہیں اب ’’دال ساگ‘‘ پر گزارا کرنا پڑے گا ۔
(3) مولانا قادری صاحب کے متعلق اتنا کچھ لکھا ہے کہ اب اپنے گنہگار ہونے کا گمان ہونے لگا ہے ۔ مولانا صاحب نیک انسان ہیں اور روحانیت کے اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں پر پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں ہوتا ۔ اگر خارزار سیاست میں آبلہ پا نہ ہوتے تو اب تک قطب اور ابدال بن چکے ہوتے ۔ اپنے مریدان با صفا کی نظر میں شاید اب بھی ہوں ۔ دیار غیر میں بیٹھ کر عمران کے دھرنے میں شمولیت کا عندیہ دیا ۔ احتیاطاً ٹکٹ بھی کٹوا لیا مبادل کامیابی کی صورت میں عمران سارا کریڈٹ اکیلا ہی نہ لے جائے ۔ عملاً انکی شمولیت کا یہ عالم تھا کہ یکم نومبر تک پتہ ہی نہ چل سکا کہ انکے جانثار کہاں ہیں اور کس طرح وہ تمام رکاوٹوں کو پھلانگتے ہوئے اسلام آباد پہنچیں گے ۔ اب جبکہ عدالت عظمیٰ کی تجویز کے مطابق دھرنا ختم کر دیا گیا ہے تو حضرت سیخ پا ہیں ۔ معاہدہ پر باقاعدہ فاتحہ پڑھا ہے اور ایک مرتبہ پھر روحانی دنیا میں لوٹ گئے ہیں ۔
(4) حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور میاں صاحبان کی اس لڑائی میں کافی لوگوں کے حلوے مانڈے لگے ہوئے تھے ۔ بادہ ظرف قدح خوار دیکھ ہی نہیں بٹ رہا تھا بلکہ کئی کم ظرف بھی اپنے ’’بٹھل‘‘ اٹھائے مئے ناب سے سیراب ہو رہے تھے ۔ سیاسی طور پر بھی انہیں فائدہ پہنچ رہا تھا ۔ اسکی مثال ایک واقعہ سے دی جا سکتی ہے ۔ میں 1970ء میں اسسٹنٹ کمشنر قلات تھا ۔ مستونگ میں دو بلوچ قبیلوں ، مارنگ زئیوں اور شیخوں میں لڑائی ہو گئی ۔ سینکڑوں بندوقیں ایک دوسرے پر تن گئیں ۔ میں نے ڈی سی قلات فقیر محمد بلوچ (بعد میں وہ چیف سیکرٹری بھی رہے ) کو لکھا کہ مستونگ کسی وقت بھی خاک اور خون میں نہا سکتا ہے اس لئے سردار دودا خان زرکزئی (وزیراعلیٰ بلوچستان کا والد) کو کیا کہا جائے کہ ان میں صلح کراو دے ۔ اس پر بلوچ ڈی سی بڑا جِز بِز ہوا ۔ کہنے لگا ۔ تم ابھی بچے ہو نا تجربہ کار ہو ۔ لڑنے دو سالوں کو آدھے مر جائینگے ۔ باقی پھانسی چڑھ جائینگے ۔ میرے سارے انتظامی مسائل ختم ہو جائیں گے ۔ ان لیڈروں کا بھی یہی خیال ہے ۔ شریفوں اور خان کی لڑائی انہیں بد حال کر دیگی ۔ اتہام اور دشنام طر ازیاں انہیں سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گی ۔ اس طرح ان کا سیاسی راستہ آسان ہو جائیگا ۔
(5) اب جبکہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے اور دونوں متحارب فریق ایک دوسرے کیخلاف دستاویزی شہادتیں اکٹھی کر رہے ہیں تو ہو گا کیا؟ یہ جاننے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے ۔ میاں صاحب معاملے کو طول دینے کی کوشش کریں گے ۔ انکے پاس نامور وکلاء کی ایک پوری پلٹن ہے ۔ وہ قانونی موشگافیوں اور ہیرا پھیریوں کے ماہر ہیں ۔ اپنی دلیلوں سے کئی تاویلیں نکالیں گے ۔ انہیں صرف دو ماہ تک کیس کو لٹکانہ ہو گا ۔ نومبر اور دسمبر اس کے بعد نئی حقیقتیں سر اٹھائیں گی ۔ ویسے بھی بار ثبوت مدعی پر ہو گا ۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ عدالتیں Moral Convictions پر نہیں بلکہ ٹھوس شہادت پر انحصار کرتی ہیں جو اکثر دستیاب نہیں ہوتی ۔ خان بے شک ایماندار سہی ان کا بھی ’’ٹیکنیکل ناک آئوٹ‘‘ہو سکتا ہے ۔ پھر انکے ارد گرد جو لوگ ہیں کیا وہ اپنے آپکو بچا پائیں گے ؟ فیصلہ تو عدالتوں نے کرنا ہے جو یقینا انصاف کے تقاضوں کو پورا کریگا لیکن قزائین ، شواہد اور کوائف سے کچھ یوں لگتا ہے کہ فریقین:
(They Will Sink Or :Sail Togather)

ای پیپر دی نیشن