گزشتہ ہفتے سے نیویارک میں امریکی صدارتی الیکشن مہم دیکھ رہا ہوں جوکہ بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ یہاں پاکستانی ہلیری کلنٹن کی زبردست مہم چلا رہے ہیں جن میں مشہور پاکستانی سیاسی رہنما چوہدری سرور پیش پیش ہیں۔ تقریبات منعقدکر رہے ہیں اور اخبارات میں اشتہار دے رہے ہیں۔ ایک رنگ بنا ہوا ہے۔ پاکستان سے مشہور و معروف صحافی امریکہ آ رہے ہیں۔ سمیع ابراہیم اور نصراللہ ملک بھی پہنچ گئے ہیں۔ سمیع ابراہیم اپنی بے باک گفتگوکیلئے مشہور ہیں سچ بولنے سے ان کوکوئی نہیں روک سکتا چا ہے انکے سامنے حکمران طبقہ ہو یا پیپلز پارٹی کا ننھا مُنا شہزادہ بلاول۔ پاکستانی کمیونٹی کے رہنماﺅں نے اپنے اپنے انداز میں کھانوں کا اہتمام کیا۔ مائک افتخار احمد نے ترکش ریسٹورنٹ میں کھانا دیا تو پاکستانی مشہور و معروف ڈھول والے بوٹے خان کو بھی بُلا لیا جنہوں نے ڈھول بجا کر پاکستان کی یاد تازہ کر دی۔ ترکش لڑکیاں ہماری محفل میں ڈانس کئے بغیر نہ رہ سکیں اور یوں محفل ایک شانداردعوت میں تبدیل ہو گئی۔ ملک عباس نیویارک کے قریب سٹیٹس آئس لینڈ میں رہتے ہیں انہوں نے اپنے شاندار گھر میں دعوت کا اہتمام کیا اور تمام شرکاءمحفل کی گفتگو کا محور پاکستانی سپریم کورٹ کی سماعت اور امریکی صدارتی الیکشن تھا۔ تحریک انصاف کے لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مجاہد علی خان امریکن وکیل ہیں اور امریکہ میں تحریک انصاف کے بانی ہیں اور آج بھی اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود عمران خان کا ساتھ دیتے ہیں اور پاکستان کیلئے درد دل رکھتے ہیں۔ ملک عباس کے دونوں بیٹے ایکٹو طریقے سے مہمانوں کی خدمت کر رہے تھے۔ بچوں میں کوئی امریکنTouch نہیں تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ہمارے بچے پاکستان میں مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں۔ ملک عباس کا بیٹا نور محمد ایک جذبے کے تحت پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا ہے مجھے اس میں بڑا Talent نظر آیا۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی اپنا ٹیلنٹ لیکر پاکستان آ جائیں تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔ پاکستان کو انکے جمہوری تجربہ کی بھی ضرورت ہے۔ امریکہ اور یورپ میں جن پاکستانیوں نے جمہوری اور ترقی کا جوش حاصل کیا انکو چاہئے کہ وہ اپنا یہ سبق پاکستان کو ٹرانسفرکریں۔پاکستان میں 2 نومبر خیر و عافیت سے گزر گیا۔ اسلام آباد بند کرنیوالوں نے یوم تشکر منایا حکومت نے 2 نومبر سے پہلے ہی اسلام آباد تو کیا ملک ہی بند کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنی پہلی ہی سماعت میں پانامہ پیپرز پر نہ صرف نوٹس جاری کر دئیے بلکہ فریقین کو اعتماد میں لیکر کمیشن بنانے، TORs بنانے اور آئین و قانون کےمطابق فیصلہ کرنے کا اعلان کیا۔ سپریم کورٹ ملک کی آخری عدالت ہے۔ اس کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ذوالفقار علی بھٹوکو پھانسی دی گئی جس کو تاریخ نے عدالتی قتل قرار دیا۔ دونوں فوجی مارشل لاءکو غیر آئینی قرار دیا گیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس وقت فوجی ڈکیٹڑ اقتدار سے علیحدہ ہو چکے تھے۔1996ءمیں سپریم کورٹ کے ہی فیصلے کے نتیجے میں ججوں کو day off کیا گیا اور 2008-2009 میں ایک دوسرے فیصلے کے نتیجے میں 102 ججوںکو مستعفی ہونا پڑا دونوں فیصلوں کو متنازعہ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اسکے نتیجے میں قابل ترین ججوں سے عدلیہ محروم ہوئی۔ اس طرح سپریم کورٹ نے بے نظیر بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے دی گئی سزا کو نہ صرف ختم کیا بلکہ دو ججوں کو مستعفی ہونا پڑا کیونکہ انکی گفتگو کی ٹیپ سامنے آ گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے عہد میں عدلیہ بڑی active رہی۔آج پھر سپریم کورٹ کے سامنے پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین مقدمہ ہے جس میں حکمران خاندان پر کرپشن کے الزامات ہیں پانامہ لیکس نے دنیا بھر میں ایک طوفان کھڑا کر دیا ہوا ہے۔ پاکستان کا حکمران خاندان بھی اس میں شامل ہے۔ عمران خان سمیت دیگر سیاستدانوں نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں جبکہ عمران خان نے اسکے ساتھ ساتھ عوام کی عدالت کا دروازہ بھی Knock کیا ہوا تھا۔ تحریک انصاف نے پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن میں بھی کارروائی کرنے کیلئے کوششیں کی تھیں جو کہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ ان حالات میں یکم نومبرکو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے پانامہ لیکس کے مقدمے کی سماعت کی اور شریف خاندان کو نوٹس جاری کر دئیے کہ وہ اپنا جواب داخل کرائیں۔ ان حالات اور عدالت عظمیٰ کی یقین دہانی کے بعد کہ منصفانہ فیصلہ ہو گا تحریک انصاف نے دو نومبرکی کال واپس لے لی اور اسکی بجائے یوم تشکر منانے کا فیصلہ کیا۔ پیپلز پارٹی نے اپنا وجود دکھانے کیلئے رحیم یار خان میں کارکنوںکا کنونشن منعقدکیا اور ڈھرکی میں جلسہ عام کیا۔ بلاول بھٹونے حکومت اور عمران خان پر بھرپور تنقید کی۔ لکھی ہوئی تقریر بہت اچھی تھی اچھے الفاظ تھے اچھے نعرے تھے مگر بدقسمتی سے لوگ یقین کرنے پر تیار نہیں۔ ویسے تو میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کی صحیح پالیسی30 نومبرکو انکے یوم تاسیس کے دن آئیگی۔ آصف زرداری کی واپسی، نواز شریف کی بھرپور مخالفت یا مکمل ساتھ دینے کا اعلان بھی 30 نومبر کو ہو گا۔3 نومبر کو شریف خاندان کے افراد نے اپنے بیانات جمع نہیں کرائے جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنا جواب جمع کرایا اور کہا کہ آف شور کمپنیوں اور لندن کے فلیٹ سے انکا کوئی تعلق نہیں۔ کیپٹن صفدر نے4 نومبرکوجواب جمع کرا دیا۔7 نومبر کی سماعت نے عدالت کا رخ تعین کر دیا ہے۔ آج میاں نواز شریف کرپشن کے الزام پر عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس جمالی سمیت تمام جج بڑے ایماندار اور competent ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے محترم جج صاحبان جناب کھوسہ، عظمت سعید اور اعجازالحسن اپنی غیر جانبداری میں مشہور ہیں کوئی ان کو خرید سکتا ہے اور نہ ان پر کوئی دباﺅ ڈال سکتا ہے۔ لوگوں میں ایک تاثر ہے کہ وزیراعظم اپنے اثر و رسوخ سے سپریم کورٹ کو قابوکر لیں گے یہ تاثر درست نہیں۔ محترم جج صاحبان آئین اور قانون کےمطابق صحیح فیصلہ کرینگے اور وہ جو بھی فیصلہ کریں سب کو قابل قبول ہو گا۔ کرپشن کے اس بڑے فیصلے نے ملک میں کرپشن کے دروازے بند ہونے کی نوید سنائی ہے۔ کرپشن پر حملے ہو رہے ہیں اور پے در پے حملوں سے کرپشن کا جِن ضرور قابو میں آئےگا۔ تمام حالات میں کوئی نہیں ہارا ہاں البتہ پاکستان جیت رہا ہے۔