شیخ رشید کا ’’پاکستان‘‘ شاہد رشید کا بلوچستان

تحریک انصاف کی نواز شریف مخالف تحریک سے سب سے زیادہ فائدہ شیخ رشید نے اٹھایا مگر انہیں عمران کے لال حویلی نہ آنے کا دکھ ہے۔ شیخ صاحب اس جلسے میں پہنچ گئے جو عمران کی قیادت میں برپا کیا گیا تھا۔ جسے یوم تشکر کہا گیا۔ شیخ رشید نے دھواں دار تقریر کی مگر عمران خان اس حوالے سے بھی شیخ پر بازی کیوں لے جاتے ہیں۔ کیا شیخ کو نمر 2 بننے کا بہت شوق ہے۔
موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہونے کی کوشش اچھی لگی مگر وہ یہ تو سوچیں کہ ان کے بالواسطہ لیڈر عمران خان بنی گالا سے کیوں نہ نکلے۔ بنی گالا کے باہر لوگ سردی اور بے چارگی میں سڑتے رہے اور وہ اپنے محل کے اندر عیش کرتے رہے۔ وہ اپنے کارکنوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ وہ تو اپنے دوستوں کو بھی غلام سمجھتے ہیں۔
نجانے وہ شیخ رشید کو کیا سمجھتے ہیں کبھی کبھی یہ لگتا ہے کہ وہ شیخ صاحب کو کچھ بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ چودھری نثار نے بھی شیخ رشید کو لفٹ نہیں کرائی۔ چودھری نثار نے حکم دیا تھا کہ شیخ رشید کو گرفتار نہ کیا جائے۔ بے چارے نے بڑی کوشش کی مگر گرفتار نہ ہو سکے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ لیڈر بننے کے لیے گرفتار ہونا ضروری ہے۔ عمران بھی فخریہ انداز بتاتے ہیں کہ میں بھی گرفتار ہوا اور جیل گیا تھا۔ سات آٹھ دن جیل میں رہا۔ وہ تھانے نہیں گئے سیدھے مگر جیل گئے تھے۔ کیا انفرادیت ہے مگر جو تھانے نہیں گیا وہ جیل کا اصلی لطف نہیں اٹھا سکتا۔
برادرم نواز رضا نے بتایا ہے کہ چودھری صاحب ہر نیا اور آنکھ کے آپریشن کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو پھر مسلم لیگ ن کی پالیسی کیا ہو گی۔ اب تو نواز شریف نے چودھری نثار کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے اور صورت حال قابو میں ہے۔ چودھری نثار معاملات میں کوئی مداخلت برداشت ہی نہیں کرتے۔
اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ نواز شریف کی کابینہ میں ایک ہی وزیر ہے۔ چودھری نثار علی خان باقی سب وزیر شذیر ہیں۔ نواز رضا نے یہ بھی بتایا ہے کہ پہلے عمران خان کے لیے ماسٹر مائنڈ جنرل پاشا تھے۔ اب ان کے ماسٹر مائنڈ کون ہیں۔
شیخ رشید کہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ ماسٹر مائنڈ کون ہے۔ میں خود اس معاملے میں ہیڈ ماسٹر مائنڈ ہوں۔
چند دن پہلے شاہد رشید کی قیادت میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا ایک وفد بلوچستان گیا تھا۔ سیف اللہ چودھری بھی ساتھ تھے۔ وہاں بلوچستان کے اہم لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ لاہور میں بھی صدر رفیق تارڑ کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا۔ جس میں بلوچستان کے دورے کو بہت اہم قرار دیا۔ رفیق تارڑ نے ان لمحوں کو بھی یاد کیا جب وہ کوئٹہ گئے تھے تو اختر مینگل اپنی پوری کابینہ کے ساتھ استقبال کے لئے آئے۔ وہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے مگر تارڑ صاحب صدر پاکستان نہیں تھے۔ ایسے میں مینگل صاحب نے جنگل میں منگل بنا دیا تو یہ بڑے مرتبے کی بات ہے۔
ڈاکٹر پروین خان نے کہا کہ بلوچستان کے عوام نہایت محب وطن ہیں اور وہاں علیحدگی کی کسی قسم کی تحریک نہیں ہے۔ یہ محض بھارت کا پروپیگنڈا ہے۔ بیگم صفیہ اسحاق نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ہے۔ بلوچستان کے لوگ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ انہیں پوری طرح وسائل میسر ہوں تو وہ کسی میدان میں بھی پیچھے نہ رہیں گے۔
میاں فاروق الطاف نے کہا بلوچستان کے عوام نے تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر رفیق احمد کے مطابق وفد کا دورہ کوئٹہ ایک علمی اور نظریاتی دورہ تھا۔ شاہد رشید نے کوئٹہ کے دورے کی تفصیلات بیان کیں۔ وہاں اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ صحافیوں‘ وکلا اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کی۔ صحافت اور سیاست کے جن لوگوں نے بلوچستان نہیں دیکھا‘ انہیں وہاں جانا چاہئے۔ بلوچستان کے عوام نہایت محب وطن ہیں۔ میری گزارش شاہد رشید سے ہے کہ وہ بلوچستان کے اہم لوگوں کو بلائیں اور یہاں دوستوں سے متعارف کروائیں۔
شاہد رشید کا یہ جملہ بہت خوب ہے۔ ’’تحریک پاکستان سے تکمیل پاکستان تک بلوچستان کا کردار اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ ضرورت کون پوری کرے گا؟ وفد نے گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی سے ملاقات کی۔ وہ نوازشریف کے دوست محمود خان اچکزئی سے بھی ملاقات کرتے‘ انہیں سمجھاتے کہ محمد خان اچکزئی کی گورنری کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ مگر وہ کہتے ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ نوازشریف سے میری بڑی ذاتی دوستی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری سے ملاقات کی۔ انہیں بتاتے کہ بلوچستان میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی کارکردگی کو سامنے رکھا جائے۔
یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ پنجاب میں اینکرپرسن اور دانشور اپنے مخصوص ٹی وی پروگراموں میں الٹے سیدھے تجزیے کرتے رہتے ہیں۔ وہ بلوچستان آئیں تو انہیں حقائق کا جینوئن طریقے سے علم ہو۔ یہ اہم ضرورت ہے کہ آنے والی نسلوں کی قیام پاکستان میں بلوچستان والوں کی قربانیوں سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ شاہد رشید نے ایک اخبار کے ساتھ گفتگو میں ان باتوں کی نشاندہی کی جو نئے لوگوں کی نظروں سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...