علامہ اقبالؒ اورآج کا پاکستان

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر ر وتی رہی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
9 نومبر 1877ء کا سورج اپنے ساتھ ایک تارہ زمین پر لایا، سورج دن ڈھلتے غروب ہوگیا لیکن تارے کی کرنین تیز ہوتی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی روشنی سیالکوٹ سے نکل کر چار سُو پھیل گئی یہ اُسی روشنی کا فیضان ہے کہ ہم آج ان کا یوم ولادت سرکاری وغیر سرکاری سطح پر نہایت ادب واحترام اور جوش وجذبے سے مناتے ہیں‘ محافل منعقد کی جاتی ہیں‘ نجی وسرکاری میڈیا بھی خصوصی ٹرانسمیشن کا اہتمام کرتا ہے۔ اخبارات اس دن کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں مختصراً یوں ہم اپنے لازوال ہیرو کا جنم دن مناتے ہیں۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے قومی شاعری اور ایمان افروز پیغامات سے مسلمانان عالم کو بالعموم اور مسلمانان ہند کو بالخصوص خواب غفلت سے جگا کر تصور پاکستان پیش کیا بلاشبہ یہ سہرا اقبال کے سر ہی ہے جنہوں نے انگریز اور ہندو کی سیاسی اور اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے مسلمانان ہند کو الگ ریاست کا خواب دیا اور اسی خواب کا نقشہ آلہ آباد میں خطاب کرتے ہوئے پیش کیا آپ نے ہندوستان میں مسلم قومیت کا احیاء اور مسلمانوں کی الگ نظریاتی شناخت کی بنیاد رکھی‘ آپ فکری رہنمائی اور ذہنی انقلاب کے موجد تھے۔ تخلیق ارض پاک آپ کی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہے یوں سمجھیں کہ جس ٹیم کی کپتانی کرکے قائداعظمؒ نے میچ جیتا اس ٹیم کی ٹریننگ میں اقبال کا کلیدی کردار تھا اور سپوٹران کا دیدنی جذبہ بھی آپ ؒہی کی تعلیمات کا اثر تھا یہی وجہ ہے کہ حضرت اقبالؒ کا احسان صرف مسلمانوں پر نہیں یا صرف پاکستان پر نہیں اور نہ ہی ان کی عنایات کا فیضان برصغیر کے مسلمانوں تک محدود ہے بلکہ علامہ کے احسان تلے پوری امت دبی ہوئی ہے آپ نے اپنی انقلاب آفرین شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں بیداری کی جو لہر پیدا کی اس کی ضرورت آج کی مسلم دنیا میں زیادہ محسوس کی جارہی ہے آپ بچوں‘ بوڑھوں اور جوانوں میں یکساں مقبول تھے آپ نے اپنی شاعری میں آگاہی کا رس گولا‘ 200 سال پہلے آپ نے جو سامراج کا مسلم دشمنی کا نقشہ پیش کیا تھا وہ آج بھی وہی صورتحال ہے سامراجی طاقتیں مسلمانوں کے وسائل پر قابض ہونے کے لیے سازشوں کے تانے بانے بن رہی ہیں کہیں تیل پر قابض ہونے کی کوشش کی جارہی ہے تو کہیں پانی پر بند باندھے جارہے ہیں۔ ساتھ ساتھ مسلم ریاستوں کو ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما کیا جارہا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور اہل اسلام کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے لیے پس پردہ مصروف عمل ہیں اور کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کر چکی ہیں اقبال کا علیحدہ ریاست کا خواب پورے ہوئے بھی عرصہ بیت گیا لیکن یہاں ایک سوال ہے کہ کیا یہ وہی ریاست ہے جس کا خواب اقبالؒ نے دیکھا تھا‘ کیا تفرقہ بازی، لسانی فسادات‘ صوبائیت پرستی‘ ذاتی مفاد جیسی بیماریاں اقبال کی علیحدہ ریاست میں تھیں‘ یقیناً نہیں‘ اقبال اگر آج ہوتے تو مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر ان کا دل ضرور خون کے آنسو روتا‘ اقبالؒ نے جس اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا وہاں مکمل آزادی تھی‘ وہاں مساجد بم دھماکوں اور دہشت گردی سے پاک تھیں۔ گرجا گھر محفوظ تھے عورتوں کو توقیر دی جاتی تھی۔ سود شراب کا تصور بھی نہ تھا لیکن آج اقبال کی ریاست میںسینہ زوری سے خرافات کے کانٹے بوئے جا رہے ہیں ۔ اقبال کی شاعری اور فکری زندگی کو اگر ہم اس دن کیساتھ ساتھ متواتر نئی نسل تک پہنچاتے رہیں تو ضرور تبدیلی محسوس ہوگی‘ امت پھر سے ایک ہوتی نظر آئے گی‘ کاش کہ امہ پھر سیسہ پلائی دیوار بن جائے ، ان شاء اللہ اقبال کا یہ خواب بھی اپنی تعبیر ضرور پائے گا۔
حضرت اقبال نے ٹھیک کہا تھا
اخوت اس کو کہتے ہیں چھبے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر اک پیروجواں بیتاب ہو جائے

ای پیپر دی نیشن