پاکستان،امریکہ ٹریک ٹو مذاکرات، بدگمانی اور غلط فہمی کے ازالہ کے لئے روابط بڑھانے پر اتفاق

Nov 08, 2017

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)پاکستان اور امریکہ کے درمیان ٹریک ٹو مذاکرات کا چوتھا دور گزشتہ روز یہاں ختم ہو گیا ۔ اس دور میں اتفاق پایا گیا کہ بدگمانی ا ور غلط فہمیوں کے ازالہ کیلئے دونوں ملکوں کو روابط بڑھانے ہوں گے۔ بات چیت کا تسلسل قائم رکھنا پڑے گا۔افغان خانہ جنگی کے خاتمہ کیلئے وہاں امن اور مفاہمت کی ضرورت مشترکہ طور پر محسوس کی گئی۔ امریکی دانشوروں نے پاکستان سے امریکہ کے مطالبات کا اعادہ کیا جب کہ پاکستانی مذاکرات کاروں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر واضح کیا کہ امریکہ کی غلط حکمت عملی، افغانستان کے مسائل کی مرکزی وجہ ہے۔ افغانستان میں بھارت کے ممکنہ وسیع تر کردار کی بھی پاکستان نے کے وفد نے کھل کر مخالفت کی اور اسے خطہ کے امن کے منافی قرار دیا۔ٹریک ٹو میں امریکہ کی طرف سے امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اور بعض موجودہ حکام ، یونرسٹیوں اور تھنک ٹینکس کے محققین، جنوبی ایشیائی اور افغان امور کے ماہرین، جب کہ پاکستان کی طرف سے سابق گورنر بلوچستان اویس احمد غنی، سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر، سابق کور کمانڈر ل ملتان یفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ اشفاق ندیم احمد، سابق سیکرٹری خارجہ سفیر جلیل عباس جیلانی، قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور کے چیرمین خارجہ امور مخدوم خسرو بختیار، سمیت کئی سابق سفارتکار شریک ہوئے ۔ٹریک ٹو مزاکرات کے شرکاء میں اس پر اتفاق پایا گیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان کے لئے قرضوں کے بوجھ پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔ اس لئے اس حوالے سے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ ریجینل پیس انسٹیٹیوٹ کے روؤف حسن اور ولسن سنٹر کے مسٹر مائیکل نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ دو روزہ مذاکرات کے دوران طرفین کے درمیان امریکہ کی جنوبی ایشیاء پالیسی کے حوالے سے تفصیل سے بات ہوئی، پاکستان نے امریکی پالیسی میں بھارت کے افغانستان میں کردار پر سخت اعتراض اٹھائے جب کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے بھرپور طور پر کردار ادا نہیں کر رہا۔ پاکستان میں بنیاد پرستی ختم کرنے کی ضرورت ہے، نیشنل ایکشن پلان پر درست طریقے سے عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ امریکہ نے پاک بھارت مزاکرات کی بحالی کے لئے کردار ادا کرنے سے انکار نہیں کیا تاہم وہ اس معاملہ پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بھارت اس وقت پاکستان سے مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتا تاہم امریکہ اس حوالے سے کام کرنے کو تیار ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات بحال کرواسکے۔ امریکہ پبلک فورم سے ہٹ کر دوطرفہ طریقے سے کردار ادا کرسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ امریکی وفد کو شمالی وزیرستان کا دورہ کروایا جائے گا تا کہ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات وہ کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ بات چیت میں کہا گیا کہ امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر کروانے کے حوالے سے بھی کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ بڑہتے ہوئے امریکہ بھارت تعلقات پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، دو ریاستوں کے درمیان تعلقات کسی تیسرے ملک سے تعلقات کے حوالے سے نہیں ہوتے۔یہ کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے راستے کھلنے چاہئیں جو دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ بارڈر منیجمنٹ کے لئے امریکہ سے مدد طلب کی ہے۔ امریکہ کو پاک افغان بارڈر پر خاردار باڑ لگانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ امریکہ سی پیک کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہے۔ اس پر اتفاق موجود ہے کہ چین خطہ میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے تاہم یہ تشویش ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ اس صورتحال کو اپنے سٹریٹجک فائدہ کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ مذاکرات میں سی پیک کو پاکستان اور خطے کے لئے بہتر قرار دیا گیا اور امریکی سائیڈ نے سی پیک پر کوئی منفی ردعمل نہیں دیا۔امریکی سائیڈ کا کہنا تھا کہ سی پیک کے حوالے سے جنرل جیمز میٹس کا بیان امریکی پالیسی کی عکاسی نہیں کرتا، یہ صرف بھارتی نکتہ نظر کو بیان کرنے کے لئے تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے راستے کھلنے چاہئیں جو دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے زور دئے جانے کے باوجود امریکہ کھل کر یہ تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں ہے کہ بھارت، پاکستان کے خلاف تخریبی سرگرمیوں اور دہشت گردی کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے اور نہ ہی یہ ماننے کو تیار ہے کہ بھارت اور افغانستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا پاکستان کے خلاف کوئی اتحاد موجود ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ خطے کا کوئی بھی ملک اپنی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔پاکستان کو اپنی اس یقین دہانی پر عملدرآمد کرنا ہوگا کہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ امریکہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستان کا افغان طالبان پر اب اثر و رسوخ اتنا نہیں رہا کہ وہ انہیں مجبور کرسکے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کالعدم لشکر طیبہ ، جماعت الدعوۃ اور کالعدم جیش محمد کو بھارت کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دے۔ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تفصیل سے بات ہوئی، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات سے امریکہ مطمئن نہیں ہے۔ بات چیت میں القاعدہ اور داعش سے پیداشدہ خطرات اور ان پر قابو پانے کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔ مذاکرات کے دوران امریکی وفد کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں اس کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے، حقانی نیٹ ورک پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں سب سے بڑا معاملہ ہے، امریکہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کی طرف سے سپورٹ حاصل نہیں ہے اور اس کے پاکستان کی سرزمین پر اڈے نہیں ہیں۔ امریکہ یہ بھی موقف تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی منظم دہشت گرد گروپ کا وجود نہیں ہے۔ پاکستان کی طرف سے امریکہ پر زور دیا گیا کہ وہ افغانستان میں پاکستان دشمن ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار جیسے گروپوں کے خلاف کاروائی کرے جو افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان مین دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ امریکہ کی طرف سے اس بات پر کوئی جواب نہیں دیا جارہا کہ وہ کب تک افغانستان میں قیام کرنا چاہتا ہے، اس کے افغانستان میں کیا مفادات ہیں، آیا وہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مفاہمت کی صورت میں وہاں سے چلا جائے گا یا وہاں طویل مدت تک قیام کرے گا، اس کے افغانستان میں سٹریٹجک مفادات کیا ہیں۔

مزیدخبریں