زرداری صاحب کو کون پھنسائے۔ پیلاک اور ثانیہ شیخ

مجھے آصف زرداری سے بھی ایک تعلق ہے بے نظیر بھٹو سے بھی بہت نیاز مندی تھی۔ ذوالفقار بھٹو سے بھی ملاقات ہوئی، وہ بڑے آدمی تھے۔ ہم انہیں ملتے تو صرف دیکھا کرتے۔ مرتضیٰ بھٹو بھی غیر فطری موت مرے۔ بے نظیر بھٹو بھی اسی طرح چلی گئیں۔ اب زرداری صاحب رہ گئے ہیں۔ اُن سے بہت دوستی رہی ہے۔ اب وہ کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ نجانے بات کیا ہے ۔ پہلے بہت رابطہ کرتے تھے۔ اب انہیں دوردور کردیا گیا ہے۔ نجانے کیوں؟ برادرم شیخ ریاض سے پوچھوں گا کہ مسئلہ کیا ہے؟
زرداری صاحب اور اُن کے دوستوں کے دوستوں کے بیانات آتے ہیں کہ زرداری کو پھنسایا جا رہا ہے ۔ دنیا میں اب تک کوئی پیدا نہیں ہوا جو انہیں پھنسا سکے۔ وہ دوست جو ان کی وجہ سے امیر کبیر بنے اور ہر طرح سے کامیاب ہوئے۔ وہ زرداری صاحب کو پھنسانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ناکام کوشش۔
بہت جلد زرداری صاحب کے بہت پرانے اور قریبی ساتھی وہی بات نہ کر دیں جو چودھری نثار نے کی ہے۔ صحافیوں نے کہا کہ میاں صاحب آ رہے ہیں تو چودھری صاحب نے بے ساختہ انداز میں پوچھا کہ کونسے میاں صاحب۔ صحافیوں نے حیران ہوکر بتایا کہ میاں نواز شریف۔ چودھری صاحب چلے گئے اور یہ کہہ گئے کہ انہیں میرا سلام کہہ دینا۔
انہوں نے کہیں یہ بھی کہا کہ اگر میاں صاحب میرے مشورے پر عمل کرتے تو آج بھی ن لیگ اقتدار میں ہوتی۔ البتہ نواز شریف کی بجائے شہباز شریف اقتدار میں ہوتے مگر شہباز شریف لیڈر ہیں اورنواز شریف نے رائے ونڈ سنبھالا ہوا ہے۔ شاید اسٹیبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے۔ کہتے ہیں وہ بھی نواز شریف کو پسند نہیں کرتی۔ وہ چودھری نثار کی بات کو اہمیت دیتی ہے۔ یہ بھی اہمیت کی بات ہے کہ شہباز شریف جیل میں ہے اور نواز شریف گھرپر آرام کر رہا ہے۔ نواز شریف اب مریم نوازکے سپرد سب کچھ کر دیں۔ مگر اب نواز شریف کسی پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں۔
شہباز شریف نے اپنی طرف سے اپنا کام کر دیا ہے۔ حمزہ شہباز کو آگے لایا جا رہا ہے۔ اس لئے بھی کہ آگے چودھری پرویز الٰہی بیٹھا ہوا ہے۔
شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہے اور حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ وہ بھی اپنا کام اچھی طرح کر رہا ہے۔ اس نے وزیر اعلیٰ پنجاب بُزدار کو کبھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ اُن کا ہدف صرف سپیکر اسمبلی چودھری پرویز الٰہی ہیں۔ یہ حمزہ صاحب کی سیاسی سوجھ بوجھ کی دلیل ہے۔ایک بات چلی ہوئی ہے کہ پنجاب کو علیم خان اور چودھری پرویز الٰہی چلا رہے ہیں۔
اکرم چودھری وزیر اعلیٰ کے واحد مشیر ہیں جو کالم بھی لکھتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں داد دینا چاہئے۔ اُن کے کالم بہت اہم ہوتے ہیں مگر ذرا مشکل ہوتے ہیں۔ میں تو باقاعدگی سے انہیں پڑھتا ہوں۔ اُن کے کالم میں سرکاری فراوانی ہوتی ہے اور صحافیانہ روانی بھی۔ بہت مزا آتا ہے۔ میں اُن کا بہت پہلے سے مداح ہوں۔ ان کے گھر میں ضیافتیں ہوتی تھیں۔ بہت اچھے کھانے ہوتے تھے۔ ہر محفل میں اعجاز الحق مہمان خصوصی ہوتے ہیں ،یہ بھی بہت اچھی بات ہے۔ بہت دیر ہوئی اُن سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ضیافت تو اب بھی ہو سکتی ہے ہمیں ابھی اکرم چودھری صاحب کے گھر کا راستہ بھولا نہیں ہے۔
ڈاکٹر صغریٰ صدف کے پیلاک میں پرسوں سارا دن گزرا۔ وہ مجھے اپنے ریڈیو کے لائیو پروگرام میں ملیں۔ یہاں سے اُن کے ٹیلی وژن پر بھی پروگرام نشر ہوتا ہے۔ اتنی کوریج کم کم سرکاری چینلز کو ملتی ہے۔ پوری طرح رابطہ اپنے سُننے والوں اور دیکھنے والوں سے ہوتا ہے۔
اتنی فون چھوٹے سے سٹوڈیو میں آئے کہ کمرہ چھوٹا لگنے لگا۔ اتنے خواتین و حضرات سے فون پر بات ہوئی کہ زندگی میں فون پر اتنے لوگوں سے بات نہ ہوئی ہو گی۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف اتنی آسانی اور اتنے مزے سے پنجابی بولتی ہے کہ دلوں کے دروازے کھولتی ہے۔ پیلاک کے ذریعے پنجابی زبان و ادب کے لئے بہت کام ہو رہا ہے۔ اُردو کے لئے بھی اتنی ہی محبت اور سہولت ملتی ہے۔
ایک جملہ بہت بامعنی اور خوشگوار کیفیت سے ایک کالر نے ڈاکٹر صاحبہ کے لئے بولا کے آپ آج بڑے دنوں کے بعد اپنا پروگرام خود کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے بھی بہت انجوائے کیا۔ وہ آج میرے لئے پروگرام کی میزبان کے طور پر ڈیڑھ دو گھنٹے موجود رہیں اور سُننے والوں دیکھنے والوں سے رابطہ رکھا۔ میں اس کے لئے اُن کا شکرگزار ہوں۔ میں نے بہت اچھا محسوس کیا کہ خواتین و حضرات ایک ذاتی تعلق ڈاکٹر صغریٰ صدف سے رکھتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحبہ نے پیلاک کو ایک قومی ادارہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب علمی ادبی حوالے سے یہ ایک مرکزی جگہ ہے۔ اب لوگ دوسری جگہوں کی بجائے پیلاک کو ترجیح دیتے ہیں کہ اپنی تقریبات یہاں کروائیں۔
پیلاک کی بنیاد وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے چودھری پرویز الٰہی نے رکھی تھی۔ اُمید ہے کہ وہ اس طرف توجہ کریں گے جب اس کا آغاز ہوا توشائستہ نزہت اس کی ڈائریکٹر تھیں۔ اب وہ اسلام آباد چلی گئی ہیں۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف پیلاک کے لئے بہت محنت سے کام کر رہی ہیں۔ ہم سٹوڈیو ہی میں تھے کہ ثانیہ شیخ نے اپنا پنجابی شعری مجموعہ ’’بولدی چُپ‘‘ آکے ڈاکٹر صغریٰ صدف کو پیش کیا میں چونکہ وہاں تھا تو مجھے بھی ایک کتاب اسے دینا پڑی۔ مجھے بہت شرمندگی سی ہوئی کہ کتاب تو اس نے مجھے دے دی مگر اس نے کہا کہ میں انہیں جانتی نہیں ہوں۔
میرے لئے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب سیدا پبلی کیشنز کی طرف میرے بھائی عرفان صادق نے شائع کی ہے۔ وہ بہت محنتی اور نئے لوگوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ابتدائی تحریر میں ثانیہ نے خاص طور پر عرفان صادق کا شکریہ ادا کیا ہے۔
میرے بہت دل والے بہت معروف اور محبوب دوست ڈاکٹر نثار ترابی نے دیباچے کے طور پر بہت زبردست باتیں ثانیہ شیخ کے لئے لکھی ہیں۔ جس کی وجہ سے کتاب کی ا ہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔
ثانیہ شیخ کی نظمیں میں نے بھی بڑی محبت سے دیکھی ہیں۔ وہ قابل ذکر شاعرہ ہے اور اگر اس کی دلچسپی جاری رہی تو وہ ایک معروف شاعرہ کے طور پر سامنے آئے گی۔ ڈاکٹر نثار ترابی کی باتیں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ ثانیہ میں کوئی بات تو ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں ’’جدوں شاعری وچ نظم دا مصرعہ یا غزل دا اک شعر وی اپنے ہون دا جواز پیش کر دیوے تے فر سمجھو شاعری دا جواز موجود ہے۔ اس شعری مجموعے دا ایہہ جواز تھاں تھاں اپنی پہچان کرا رہیا اے‘‘۔
برادرم نثار ترابی کی اس بات کے بعد ثانیہ شیخ مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ ایک معروف شاعرہ ہے۔ مشی گن امریکہ سے سلطان باسط نے بھی خوب لکھا ہے کہ ’’میری دعا ہے کہ ایہہ نظماں وی جیوندیاں رہن تے لخن والی وی‘‘۔
کدی تے میرے نیڑے بہو
میری سن تے اپنی کہو
میرے کولوں نسی جا
ہوراں دے نال جڑ جڑ بہو
تینوں میریاں لوڑاں پین
توں وی میرے ترلے لو
سبھاں دے توں درد ونڈا
اپنی سینے پیڑ لکو
کدی کدی ایہہ جاپدا اے
دیکھدا اے کوئی نال کھلو
میری راہ نہ کھوٹی کر
چل وے اڑیا پاسے ہو

ای پیپر دی نیشن