ٹرمپ کی صدارت پر ریفرنڈم

منگل کے روز امریکہ میں مڈٹرم الیکشن تھے۔ نیویارک میں طوفانی بارش اور سردی کے باوجود ووٹر ز کا جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ لمبی قطاریں ٹرمپ مخالف جذبات کا کھلا ثبوت تھیں۔ صبح جاب اور تعلیمی درسگاہوں کو جاتے ہوئے یا واپسی پر ووٹ ڈالے جاتے رہے۔ عمر رسیدہ ووٹرز بھی قطاروں میں کھڑے تھے اور بیمار بھی۔امریکی تاریخ میں مڈٹرم انتخابات اتنے اہم کبھی بھی نہیں رہے جتنا کہ 2018 کے یہ انتخابات۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ان انتخابات میں امریکی شہری جتنے جوش و خروش سے حصہ لے رہے ہیں اتنا ماضی میں کبھی بھی نہیں دیکھا گیا۔ ان انتخابات میں ڈیمو کرٹیک پارٹی کے لیے کئی وجوہات کی بنا پر کامیابی کے امکانات ری پبلکن پارٹی کی نسبت زیادہ ہیں۔اب تک کے تمام سروے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی دونوں ایوانوں میں جیت جائے گی۔صدر ٹرمپ نے اپنی طاقت کو بچانے کے لئے ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں کے لئے سرتوڑ الیکشن مہم چلائی ہے اور ایک دن میں کئی کئی ریاستوں میں انتخابی جلسوں سے خطاب کیا ہے۔ انہوں نے آخری روز تین مختلف ریاستوں میں تین ریلیوں سے خطاب کیا۔ صدر ٹرمپ نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پچھلے دو برسوں میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ سب داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ سابق صدر براک اوباما ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدواروں کے لیے میدان میں اترے۔ انہوں نے ایک ریلی سے ِخطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں امریکہ کا کردار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ امریکا میں ایوان نمائندگان کی تمام (435) اور سینیٹ کی ایک تہائی (34) نشستوں جب کہ 39 ریاستوں کے گورنر کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج سے کانگریس کے دونوں ایوانوں میں راج کرنے والی جماعت کا تعین ہو سکے گا۔ ایوان میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کو 235 اراکین کے ساتھ برتری حاصل ہے جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے 193 اراکین بھی اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلاتے رہے ہیں۔ سینیٹ میں صدر ٹرمپ کی جماعت پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے 100 رکنی سینیٹ میں ریپبلکن کو محض دو اراکین سے سبقت حاصل ہے۔ پچھلے تمام وسط مدتی انتخابات کے برخلاف اس بار مڈٹرم الیکشن میں امریکیوں کی دلچسپی کہیں زیادہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق 66 فیصد ووٹرز اس بار ووٹ کرنے کے لیے کمر کس چکے ہیں جب کہ صرف 9 فیصد ووٹرز نے گھر میں بیٹھے رہنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن کے بنیادی اراکین تو اپنے صدر کے ساتھ کھڑے ہیں تاہم معتدل مزاج ریپبلکن ٹرمپ پالیسیوں سے نالاں ہیں اس لئے اس بار معتدل مزاج ریپبلکن کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے راضی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا جس کا فائدہ ڈیمو کریٹک پارٹی کو ہوگا۔ اگر ان انتخابات کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی ایک یا دونوں ایوانوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے تو وہ نہ صرف صدر ٹرمپ کے لیے شدید مشکلات پیدا کر سکتی ہے بلکہ صدر کے منصوبوں کو پلٹا بھی سکتی ہے۔ ٹرمپ نے اشتعال انگیز باتیں کرنے کے لیے ٹویٹر کی شکل میں اپنے لیے نیا انداز اپنایا ہے جہاں پچپن ملین لوگ انہیں فالو کرتے ہیں۔امریکہ کی مسلم اکثریت بھی ٹرمپ پالیسیوں سے نالاں ہے اور ٹرمپ مخالف جذبات نے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو مڈٹرم الیکشن میں ووٹ کاسٹ
کرنے پر مجبور کر دیا۔ امریکا میں قبل از وقت اور غیر حاضر ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ہزاروں ووٹرز ایسے بھی ہیں جو اپنا حق رائے دہی ڈاک کے ذریعے استعمال کریں گے۔انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کا مقصد ووٹنگ ٹرن آؤٹ بڑھانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ امریکا کا ہر شہری اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کرے۔ امریکہ کا یہ تاریخی مڈ ٹرم الیکشن قرار دیا جا رہا ہے جس کا ٹرن آئوٹ زیادہ رہا اور وجہ ری پبلکن پالیسیوں کو ووٹ کی طاقت سے ہرانا ہے۔

ای پیپر دی نیشن