کل یوم اقبال ہے ۔ مشرق کے اس عظیم فلسفی شاعر کا یوم پیدائش جسے اسکی زندگی میں بھی بھرپور تکریم ملی، ورنہ یہ اعزاز بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے۔ جنہیں زندگی میں بھی اہمیت و عظمت حاصل ہوتی اور پس مرگ تو ان کی اہمیت اور عظمت اور بڑھ جاتی ہے۔ اقبال کے آبائو اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا۔ سوانح نگاروں نے انکی ذات سپرو بتائی ہے۔جو برہمنوں کی ایک گوت ہے۔ یہ خاندان کشمیر سے ہجرت کرسیالکوٹ آکر آباد ہوئے تھے ۔اقبال کو اپنے برہمن زادہ ہونے کشمیر سے نسبت پر ہمیشہ فخر رہا ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جہاں امت مسلمہ کو جگایا ۔ معاشرے کے کمزور کچلے ہوئے طبقات کو بیدار کیا ۔ مزدوروں، کسانوں کو جینے کا قرینہ دیا اسلام کے نظام حیات اور سرکار دو عالم کے آل و اصحاب کی سیرت کا درس دیا۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ آفاقی سطح پر بھی دنیا بھر کے لوگوں کو ظلم و غلامی سے نجات کا بھی درس دیتے نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انکے فلسفہ انقلاب میں لینن اور مارکسزم سے بھی آشنائی نظر آتی ہے ۔ وہ نطشے کو بھی کنگلتے ہیں عرب و عجم کے فلسفیوں کا وجدان انکی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے۔وہ مغربی افکار ہوں یا مشرقی اقدار سب سے آشنا تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج مشرق و مغرب میں ان کی ہر جگہ سنی جاتی ہے۔ انکے فلسفہ اور کلام پر دنیا بھر کی جامعات میں کام ہوتا ہے ۔ یہی اقبال جسے اپنے برہمن زادہ ہونے پر فخر تھا جو انکے گالوں کی سرخی کی قصیدہ خوانی کرتا تھا۔ وہ اہل کشمیر کی غلامی بدحالی اور مجبوری و مقہوری پر غمزدہ بھی رہتا تھا ۔ اس کا دل کشمیریوں کی حالت زار پر ہر گھڑی کڑھتا رہتا تھا ۔ انکی شاعری میں جا بجا اس کرب کا اظہار ملتا ہے جو کشمیریوں کی غلامی کو دیکھ کرانکے دل و دماغ کو اذیت میں مبتلا کرتا تھا۔ شاعری میں خود اقبال اپنے کو بت شکن مسلمان کشمیری حکمران شہاب الدین نثراد قرار دیتا ہے جس نے کشمیر میں شاندار دبدبے سے حکومت کی ۔اسکے ساتھ ہی وہ کشمیریوں کو اپنے ماضی کے عظیم مسلم کشمیری سلاطین کے دور کی یاد دلا کر آمادہ جنوں بھی کرتا ہے انہیں درس دیتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اٹھ کر اپنی کھوئی ہوئی سلطنت بحال کریں وہ آب وولر کے کنارے بیٹھ کر آنے والے مستقبل کا خواب دیکھ کر بے اختیار پکار اٹھتا ہے۔
ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیںکب تک
خضر سوچتا ہے وولر کے کنارے
اس طرح وادی لولاب میں پہنچ کر وہ اپنی نظم ملازادہ ضیغم لولابی کے خطاب میں بڑی خوبصورتی سے کشمیریوں کے رگوں میں بستے لہو کو لولاب کے کوہ دامن میں بہتے ہوئے چشموں ندی نالوں سے تشبیہ دے کر کہتے ہیں ۔
پانی تیرے چشموں کا ابلتا ہوا سیماب
اے وادی لولاب
اقبال کے دماغ میں کشمیریوں کی عظمت گزشتہ کا نقشہ بھی تھا اور موجودہ غلامی کا دکھ کا وہ چاہتے تھے کہ کشمیری ایک بار پھر اپنی عظمت رفتہ کو پالیں اسکی راہ انہوں نے یہ کہہ کر دکھائی ۔
در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں
مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر
کیا اس سے بہتر کوئی مشورہ موجودہ حالات میں ہو سکتا ہے۔
اقبال کا کلام آج بھی صرف پاکستان میں ہی نہیں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے چپے چپے میں کشمیریوں کا لہو گرما رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر یونیورسٹی میں اقبال چیئر اور ہال قائم ہے۔ کشمیر کے ہر کالج میں اقبال ہال موجود ہے۔ ہر شہر میں اقبال پارک موجود ہے۔ ہر دکان پر اقبال کی تصویر لگی ہے۔ آج اس کشمیر کا حال ایک بار پھر ابتر ہے۔ بھارتی غاضب افواج کے ہاتھوں ہر قسم کا ظلم و ستم کشمیریوں پر آزمایا جا رہا ہے ۔ مگر اسکے باوجود اقبال کے یہ روحانی فرزند اپنی آزادی کی تحریک کو جان و مال کی قربانیاں دے کر زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کے لبوں پر اقبال کی وہی لازوال دعا ہے۔
توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے
روح آزادیء کشمیر کو پامال کیا
کشمیریوں کی لازوال جدوجہد اور بے مثال قربانیوں نے تاریخ عالم میں عزم و ہمت کی وہ داستان رقم کی ہے جس کی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے آج ان قربانیوں کا ہی صلہ ہے عالمی برادری بھی ایک بار پھر بھارت کے بچھائے ہوئے جمہوریت کے جھوٹے جال کو توڑ کرکشمیر کی اصل حقیقت سے دنیا بھر کو آشنا کرنے کیلئے یک آواز ہیں اور ہر طرف سے یہی آواز آ رہی ہے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں داخلے کی اور وہاں جا کر آزادانہ تحقیقات کی اجازت دی جائے تاکہ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں اور کشمیریوں کی نسل کشی کو بے نقاب کرکے منظر عام پر لایا جا سکے۔ مگربھارت کی ہٹ دھرمی برقرار رہے اور وہ اسکی اجازت نہیں دے رہا ۔ برطانوی دارالعلوم (پارلیمنٹ) کے ممبران نے بھی پاکستان اور بھارت میں منقسم کشمیری خاندانوں کے درمیان جنم لینے والے انسانی المیہ کی شدت کم کرنے کیلئے دونوں ملکوں سے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت آر پار بسنے والے کشمیریوں کیلئے پاسپورٹ اور ویزے کی فراہمی میں نرمی لائے انہیں آزادانہ آنے جانے میل ملاقات کی سفری سہولتوں کی فراہمی آسان اور یقینی بنائے ۔ یہ لاکھوں تقسیم شدہ کشمیری گھرانوں کا خالصتاً انسانی مسئلہ ہے ۔ اگر دونوں ممالک ان تقسیم شدہ خاندانوں کو سفری سہولتوں کی فراہمی آسان بنائے تو کم از کم ان خاندانوں کے درمیان میل ملاپ کی آسانی ہوگی، اور برسوں سے بچھڑے ہوئے لوگوں کی ملاقات ہوگی۔ امید ہے دونوں ملک جلد از جلد کم از کم بچھڑے ہوئے کشمیری خاندانوں کو آسان ترین ویزا ؐ، پاسپورٹ اور سفری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے گی۔