فضائی آلودگی کا عفریت: چند تجاویز

انسا ن اور اسکے ماحول کے ارتبا ط و تعلق کا قدرتی پیرایہ نہایت لطیف و نفیس ہے۔اٹھارویں صدی عیسوی کے عظیم و کبیر صنعتی انقلاب کے بعد سرعت سے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی نے زمین کے ماحولیاتی نقوش پر دُور رس اثرات مرتّب کئے۔ٹیکنالوجی کے بے دریغ و بے لگام استعمال نے ماحولیاتی آلودگی کو جنم دیا جو عہد ِ حاضرکے اہم ترین مسائل میںسے ایک ہے۔دستیاب اعداد وشمار کے مطابق ہر سال دنیا میں فضائی آلودگی کے باعث 70لاکھ افراد لقمئہ اجل بن جاتے ہیںفضائی آلودگی فضامیں کاربن ڈائی آکسائڈ، کاربن مونو آکسائڈ،میتھین،سلفر ڈائی آکسائڈ اورکلورو فلورو کاربنزجیسے اجزاکی موجودگی کے سبب ظہور پذیرہوتی ہے۔ مقامِ تاسف ہے کہ فضائی آلودگی جانچنے والے عالمی اداریــ آئی کیو ایئر کے مطابق پاکستان کے کئی شہر دنیا کے پچاس آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ لاہورکی بات کریں تو 2016 سے اس بلادِ رنگیں کو ایک پریشان کن آلودگی نے گھیر رکھا ہے اور وہ ہے سموگ یعنی ہوا میں معلّق دھند نما آلودہ دھواں۔ نائٹروجن آکسائڈ، سلفر ، اوزون اوردیگر ذرّا ت سورج کی روشنی میں سموگ کو جنم دیتے ہیںجو اکتوبر سے جنوری تک فضا میںقائم رہتا ہے۔ فضائی آلودگی ماپنے کیلئے عالمی ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) یعنی جدولِ معیارِ ہوا ترتیب دی گئی ہے۔ اس انڈیکس کی معینہ قدروں کیمطابق صفر سے پچاس تک فضا کامعیار عمدہ تصور کیا جاتا ہے۔ اکیاون سے ایک سو تک درمیانہ ، ایک سو ایک سے ایک سو پچاس تک اکثریت کیلئے مناسب،ایک سواکیاون سے دو سو تک عمومی طورپر غیر صحتمندانہ،دو سو ایک سے تین سو تک نہایت غیر صحتمندانہ اور تین سو ایک سے پانچ سو تک ہوا کا معیارخطرناک حد تک غیر صحتمندانہ شمار ہوتا ہے۔ لاہور میں اے کیو آئی ڈھائی سو سے چار سو کے درمیان رہتا ہے۔ یہ فضا کے مسموم ہونے کی دلیل ہے اور دمہ ، امراضِ ناک و حلق و گلا، پھیپھڑوں کی بیماریوں اور مختلف الرجیزکاسبب بھی۔لاہور اس وقت سموگ کے پردے میں چھپ چکا ہے۔لازم ہے کہ اسکے خاتمے کے حوالے سے ضروری فیصلے کئے جائیں۔ اس کالم میں سولہ اہم انتظامی اقدامات کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ ایک، وفاقی حکومت ملک بھر میںماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کرے۔ دو،پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 پر نظرِثانی کیلئے وفاقی اور صوبائی نمائندوں پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی جائے جوتین ماہ میں اس قانون کو بہتربنانے کیلئے سفارشات پیش کرے ۔ تین، پنجاب کلین ایئر کمیشن تشکیل دیا جائے جو سرکاری افسران، عوامی نمائندوں، ماحولیاتی ماہرین اور ارکانِ سول سوسائٹی پرمشتمل ہواور صوبے میں ہوا کو صاف رکھنے کے حوالے سے تجاویز دے۔ چار، ماحولیاتی آلود گی کی مختلف جہتوں کے بارے میں عوامی آگہی کیلئے بھر پور تشہیری مہم کا آغاز کیا جائے۔ یہ مہم ٹی وی چینلز، ریڈیو پاکستان، ایف ایم ریڈیو چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر چلائی جائے۔ پانچ، اینٹوں کے بھٹّوں کواکتوبر سے دسمبرتک غیرفعال رکھا جائے۔چھ، انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ پنجاب بھٹّوںمیں آل پاکستان برک کلن ایسوسی ایشن کی مدد سے نئی زگ زیگ ٹیکنالوجی متعارف کروائے جس سے دھوئیں کے اخراج کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ سات، ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ پنجاب فصلوں کی باقیات جلانے والوں کیخلاف موثر کارروائی کرے۔ آٹھ، دھواں خارج کرنیوالی گاڑیوں کیخلاف پراونشل موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 کے تحت کاروائی کی جائے۔ اس مقصد کیلئے ہر ضلع میں سپیشل ٹریفک پولیس سکواڈز قائم کئے جایئںجن کی نگرانی ایڈیشنل آئی جی ٹریفک پنجاب کریں۔ نو، انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ صنعتوں کو فیول گیس ڈی سلفرائزیشن کے عمل کا پابند بنائے تاکہ ماحول سلفر سے پاک ہو سکے۔دس،پنجاب انڈسٹریز ، کامرس اینڈ انویسٹمنٹ ڈپارٹمنٹ سٹیل ری رولنگ ملوں کو صاف ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف راغب کرے۔ گیارہ، ضلعی حکام کچرے کونذرِ آتش کرنیوالوں کے خلاف پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے بلا امتیاز کاروائی کریںبارہ، پبلک ہیلتھ (ایمرجنسی پرویژنز) آرڈیننس 1944کو بذریعہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نافذ کیا جائے ۔یہ قانون اجتماعی عوامی صحت کا ضامن ہے ۔ تیرہ، پنجاب کلین ائیر ایکشن پلان پر عملدرآمدکیا جائے۔چودہ، انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ پنجاب میں صوبائی سموگ ماینٹرنگ یونٹ قائم کیا جائے جبکہ پنجاب کے تمام ڈپٹی کمشنرزکے دفاتر میں سموگ میژرمنٹ اینڈ رسپانس ڈیسک ہوں۔یہ ڈیسک ایئر کوالٹی انڈیکس سے حاصل کردہ معلومات مانیٹرنگ یونٹ کو روزانہ کی بنیاد پر بھجوائیں تاکہ حکومت اس سلسلے میں بہترفیصلہ سازی کرسکے۔ پندرہ، پنجاب فارسٹ، وائلڈلائف اینڈ فشریز ڈپارٹمنٹ پنجاب میں املتاس، کیکر، نیم،سیمل، پیپل اوردیگر اقسام کے درخت بڑی تعداد میں لگائے تاکہ ماحول میںخوشگوار تبدیلی واقع ہو۔سولہ،سموگ بھارت کے مختلف شہروں سے بھی پاکستان کی سمت سفر کرتی ہے۔ ۔ اس پس منظرمیں وفاقی حکومت اس معاملے کوپاک ـــبھارت دو طرفہ مذاکرات کا حصّہ بنائے۔

ای پیپر دی نیشن