فرانس کی تباہی 

Nov 08, 2020

جدید تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ریاستی سطح پر رحمت دو عالم ، سرور کونین ؐ  کی شانِ رسالت میں توہین کا ارتکاب کیا گیا ۔ وہی فرانس جس کی پہچان کبھی زثاں پال سارتے ، رو سو ، والفیئر، اور برگساں جیسے انسان دوست مفکر و فلسفی ہوا کرتے تھے۔ اب اس کا تشخص ایک نفرت کے پرچار ملک کا ہو چکا ہے۔ جہاں حکومتی سرپرستی میں محسنِ انسانیت ؐ کی شان میں بدترین گستاخیوں کا ارتکا ب کیا جارہا ہے ۔ اس کا انجام کیا ہوگا ۔یہیں سے تاریخ خود کو دہراتی ہے چنانچہ اگر حکومتِ فرانس  نے اپنی نفرت انگیز روش نہ بدلی تو تاریخ اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر دہرائے گی ۔ ڈیڑھ ہزار برس پہلے بھی ریاستی سطح پر شانِ رسالت میں گستاخی کی گئی تھی ۔ جس کا نتیجہ سلطنت فارس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی شکل میں دنیانے دیکھا۔ روم کی طرح فارس (ایران )بھی قدیم ترین شہنشایت کا گہوارہ اور ایشیاء کی عظیم الشان سلطنت تھی ۔ حضور کریم ؐ نے جس خسرو یا کسریٰ کے پاس دینِ الٰہی قبول کرنے کی دعوت ارسال فرمائی جس کا نام پرویز تھا جو مزبن نوشیروان کا بیٹا تھا ۔ اس وقت فارس کا دستور یہ تھا کہ بادشاہوں کو جو خطوط لکھے جاتے ان میں سب سے پہلے بادشاہ کا نام ہوتا تھا لیکن ناموں مبارک کو رب کے نام ’’بسم اللہ ‘‘ سے شروع کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد سرور کائناتؐ  کا نام مبارک تھا جب اسے خسرو پرویز کے سامنے پڑھاگیا تووہ اپنے نام سے پہلے آنحضور کریم ؐ  کا نام سن کر تخت غضب ناک ہو ا اور شانِ رسالت میں ہرزہ سرائی کرنے لگا پھر طیش میں آکر نامۂ مبارک کو پرزے پرزے کردیا ۔ قاصد نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ عرض کیا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ اسی طرح اس کی حکومت کے بھی پرزے پرزے ہوجائیں گے اپنے محبو بؐ کے الفاظ کو اللہ پاک نے تدبیر بنا ڈالا ۔ پھر سلطنت فارس پر ایسا عذاب نازل ہوا کہ تھوڑی ہی مدت میں ہزاروں برس قدیم اس عظیم الشان سلطنت کے پرزے ہوا میں اُڑ گئے ۔ 
فرانس کے صدر ملعون ایمانویل میکرون نے بھی خسرو پرویز کی پیروی کرتے ہوئے اپنی ریاست کی بربادی کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ ایسا بھلا کس طرح ممکن ہے کہ جس ملک میں لاکھوں مسلمان بستے ہوں وہاں کی سڑکوں پر توہین آمیز خاکے آویزاں کرکے یہ گمان کیا جائے کہ امن وامان برقرار رہے گا ؟ ملعون میکرون کے اس خناس کے ابتدائی نتائج تو سامنے آنا شروع ہو ہی چکے ہیں۔ گزشتہ روز فرانس میں ایک تیونسی نوجوان ابراہیم العیساوی نے نوٹرے ڈیم چرچ میں گھس کر نائب پادری سمیت تین افراد کو ہلاک اور کئی لوگوں کو خنجر کے وار سے زخمی کردیا تھا ۔پولیس فائرنگ سے شدید زخمی ہونے والے حملہ آور نوجوان کا ہسپتال میں بیان دیتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ کسی بھی حال میں توہین شانِ رسالت برداشت نہیں کرسکتا ۔ واقعہ کے حوالے سے تیونس میں مقیم ابراہیم کی ہمشیرہ عفیف العیساوی اور بڑے بھائی یٰسین العیساوی نے بتایا کہ ان کا بھائی ایک مہربان اور شفیق انسان ہے ۔ شدت پسندی اسے چھو کر بھی نہیں گزری ۔ یقیناً گستاخانہ خاکوں نے اسے اس قدر مشتعل کیا ہوگا کہ وہ سدھ بدھ کھو بیٹھا اور اتنا بڑا قدم اُٹھایا۔ اسی طرح کے ایک اور واقعہ نے فرانسیسی شہر لیون میں ایک پادری کو اس وقت دو گولیاں ماری گئیں جب وہ چرچ بند کررہا تھا۔ یقیناً اس افسوسنا ک واقعات کی توصیف اسی طرح نہیں کی جاسکتی لیکن دیکھنا ہوگا کہ اس کشت وخوں کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ 
ملعون میکرون کی شیطانیت کے خلاف کچھ آوازیں تو یورپی ملک میں اُٹھنا شروع ہوئی ہیں۔ ایک انٹرویو میں فرانسیسی آرچسٹ نے توہین شانِ رسالت کو سنگین جرم قرار دیا ہے ۔ پادری میجر روبرک لیگال کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں مقد س شخصیا ت کی توہین ناقابل برداشت ہے ۔ پاپائے روم کے روحانی سفیر روبرک لیگال کے مطابق اظہار رائے کی آزا دی کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے وہ مذاہب کے کھلواڑ کے مترادف ہے اس کے نتائج انتہائی سنگین نکلیں گے ۔ لات پادری کا مائیکرون حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جو کچھ آپ نے توہین آمیز خاکوں کی حمایت میں کیا۔ اس کا نتیجہ نوٹرے ڈیم چرچ میں تین ہلاکتوں کی صورت میں دیکھ لیا ۔ گستاخانہ خاکوں نے عالم اسلام کو مشتعل کردیا ہے ۔ یہ خاکے تو خود عیسائیت میں بھی قابل قبول نہیں ہیں ۔ انہوں نے فرانسیسی حکومت کو متنبہ کیا کہ یہ عمل انتہائی خطرناک اور اشتعال انگیز ہے۔ اِدھر فرانسیسی ساحلی شہر نیس کے پادری نے بھی ملعون میکرون کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی سرپرستی میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے ۔ اس نفرت انگیز عمل کا اظہار رائے کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔گستاخانہ خاکوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے ان کلیسائی نمائندوں نے نا صرف ایک اچھے انسان اور مسیحی ہونے کا ثبوت دیا ہے بلکہ ان کے عمل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ ریاست فرانس کو تباہ و برباد ہونے سے بچانا چاہتے ہیں ۔ ایساہی طرز عمل فرانسیسی عوام کو بھی اپنانا ہوگا۔ کیونکہ ملعون میکرون اوردیگر سیاستدانوں سے پیچھا چھڑا کر ہی فرانس کو فارس جیسے انجام سے بچایا جاسکتا ہے ۔ 
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں