بلیم گیم کی سیاست میں ریاستی اداروں کو گھسیٹنے سے بہرصورت گریز کیا جائے

Nov 08, 2020

اداریہ

وزیراعظم کا میاں نوازشریف اور انکی بیٹی پر فوج کو بغاوت پر اکسانے اور ملک دشمن ہونے کا الزام 
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نوازشریف لندن میں بیٹھ کر فوج کو فوجی قیادت کیخلاف بغاوت پر اکسا رہے ہیں‘ ان سے بڑا ملک دشمن کوئی نہیں۔ گزشتہ روز سوات میں صحت کارڈ کے افتتاح کے موقع پر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا‘ اب یہ ڈرامہ ہو رہا ہے کہ سارے پاکستان کے بڑے ڈاکو اکٹھے ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکو لندن جا کر بیٹھ جاتا ہے‘ بیماری کی ایکٹنگ کرتا ہے جس پر ہمیں ترس آجاتا ہے‘ وہ باہر چلا گیا۔ اس نے کوشش کی تھی کہ کسی طرح این آر او مل جائے لیکن وہ جانتا ہے کہ عمران خان این آر او نہیں دینے والا تو اس نے باہر بیٹھ کر گیم کھیلنا شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے پاکستانی فوج اور عدلیہ پر حملے کرنے کا جو کھیل کھیلنا شروع کیا ہے وہ فوج کو اپنی قیادت کیخلاف اکسانے والا ہے۔ اسکی بیٹی بھی یہی باتیں کررہی ہے جو اس فوج کیخلاف یہ زبان استعمال کررہی ہے جو اس ملک کیلئے روز قربانیاں دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملک کا وزیراعظم اور سکیورٹی ایڈوائزر پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے اور ایسے وقت میں یہ فوج کیخلاف اس طرح کی زبان استعمال کررہی ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو ایسی زبان استعمال کرنیوالوں کو جیل میں ڈال دیتا لیکن ہم عورتوں کا احترام کرتے ہیں۔ وہ خاتون ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف گیدڑوں کی طرح باہر بیٹھ کر بول رہا ہے۔ اسکے بیٹے بھی پیسہ چوری کرکے باہر بھاگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا جس دن میں نے اپنی کرسی بچانے کیلئے ان ڈاکوئوں کو این آر او دیا اس دن اپنے ملک سے سب سے بڑی غداری کروں گا۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور انکی پارٹی تحریک انصاف کو عوام نے انکے کرپشن فری سوسائٹی کے نعرے کی بنیاد پر انتخابات میں پذیرائی بخشی اور اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے اسی ایجنڈا کو ترجیح اول بنایا جس کیلئے نیب اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ پہلے ہی منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات میں متعلقہ سابقہ حکمران طبقات کیخلاف کارروائی عمل میں لارہی تھی۔ میاں نوازشریف‘ انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نیب کے ریفرنس میں سزا یافتہ بھی ہو چکے ہیں اور مزید ریفرنسوں کی انکے اور انکے خاندان کے دیگر لوگوں کیخلاف سماعت جاری ہے۔ اسی طرح میاں شہبازشریف اور انکے خاندان کے افراد بھی نیب کے مقدمات کی زد میں ہیں جبکہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور انکے خاندان کے بعض افراد کیخلاف بھی نیب کے مقدمات چل رہے ہیں چنانچہ کوئی چور ڈاکو ہے تو وہ جرم ثابت ہونے پر متعلقہ عدالتوں سے مستوجب سزا ہوتا رہے گا۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا تجسس اپنی جگہ مگر آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری میں کسی چور ڈاکو نے جرم ثابت ہونے پر عدلیہ کے فیصلوں کے تحت ہی قانون کے شکنجے میں آنا اور سزاوار ہونا ہے اس لئے عدالتی مقدمات پر سیاست سے گریز کرنا ہی مناسب ہے کیونکہ اس پر سیاست ہوتی ہے تو نیب کے شکنجے میں آنیوالے سابق حکمرانوں کو نیب کی کارروائیوں اور اقدامات پر جانبداری کے الزامات لگانے اور اسے انتقامی سیاسی کارروائی کے کھاتے میں ڈالنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی طرح بلیم گیم کی اس سیاست میں محاذآرائی بڑھتی ہے اور اس سے ذاتی دشمنی اور انتقام کا تاثر اجاگر ہوتا ہے تو اس کا ملبہ بالآخر جمہوری نظام پر ہی آگرتا ہے۔ 
آج بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین بلیم گیم انتہا درجے تک آپہنچی ہے جس میں حکومت کے غیرمفاہمانہ اور سخت رویے کا بھی عمل دخل ہے کیونکہ اپوزیشن قائدین کو تسلسل کے ساتھ چور ڈاکو پکار کر اور انہیں ملک دشمنی کا موردالزام ٹھہرا کر انہیں دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جائیگی تو اسکے ردعمل میں وہ بھی حکومت کیخلاف تلخ لہجہ ہی اختیار کرینگے۔ آج اس حوالے سے سیاسی تلخیاں ذاتی دشمنیوں کا تاثر دیتی نظر آرہی ہیں جس کا تسلسل برقرار رہا تو اس کا نقصان دونوں فریقین کے علاوہ ملک اور عوام کو بھی اٹھانا پڑیگا اور جمہوریت کی گاڑی ٹریک سے اتر گئی تو اسے واپس ٹریک پر لانے کیلئے شاید پہلے سے بھی کٹھن اور طویل جدوجہد کرنا پڑیگی اس لئے بہتر ہے کہ اسکی نوبت ہی نہ آنے دی جائے۔ 
جہاں تک میاں نوازشریف پر فوج کو بغاوت پر اکسانے سے متعلق وزیراعظم عمران خان کے الزام کا معاملہ ہے‘ اس بارے میں بھی مجاز فورم موجود ہیں اور آئین پاکستان میں بھی صراحت کے ساتھ بطور ادارہ افواج پاکستان‘ عدلیہ اور ملک کی سلامتی سے متعلق معاملات کیخلاف بات کرنے کی ممانعت ہے اور کسی کا ایسا اقدام مستوجب سزا ہے۔ اسی طرح آئین شکنی کی سزا بھی آئین میں متعین ہے۔ اگر حکومت کے پاس میاں نوازشریف اور انکی پارٹی کے دوسرے افراد کیخلاف ملک دشمنی کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو اس کیخلاف سپریم کورٹ اور دوسرے مجاز فورموں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ بے شک ملک کی سلامتی کیلئے بھارت کے لاحق کردہ خطرات کے تناظر میں پوری قوم کے افواج پاکستان کے ساتھ یکجہت ہونے اور دفاع وطن کیلئے سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینے کی ضرورت ہے اس لئے اس موقع پر کسی کی بھی جانب سے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ خود بھی قومی سیاسی قائدین کو یہی باور کراچکے ہیں کہ فوج کو سیاست میں ملوث نہ کیا جائے اور اپنے حکومتی اور انتظامی سیاسی معاملات متعلقہ فورموں پر ہی طے کئے جائیں اس لئے فوج اور اسکی قیادت کو اپنی بلیم گیم والی سیاست سے دور ہی رکھا جائے تو ملک اور سسٹم کیلئے بہتر ہوگا۔ میاں نوازشریف کیخلاف فوج کو اپنی قیادت کیخلاف بغاوت پر اکسانے کا کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو انہیں مجاز فورم پر قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی حلیف جماعت پیپلزپارٹی کے صدر بلاول بھٹو زرداری نے بھی فوجی قیادت کو موردالزام ٹھہرانے والے میاں نوازشریف کے بیانیے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد بغیر ثبوت کے بات نہیں کر سکتے اس لئے وہ انکے ساتھ براہ راست ملاقات میں اس معاملہ پر ان سے مفصل بات کرینگے۔ یقیناً پی ڈی ایم خود بھی میاں نوازشریف کے بیانیہ کے حوالے سے اپنی پالیسی طے کریگی بصورت دیگر پی ڈی ایم کی بقاء ممکن نہیں ہوگی تاہم وزیراعظم عمران خان اور دوسرے حکومتی اکابرین کو بھی اپوزیشن لیڈران کیخلاف جارحانہ طرز عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی کیونکہ اس طرز عمل کے باعث ہی سارے چور ڈاکوئوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا موقع ملتا ہے۔ آج ملک میں رواداری اور شائستگی کی سیاست کو فروغ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ جو معاملات قانون اور عدلیہ سے متعلق ہیں وہ انہی پر چھوڑے جائیں اور بلیم گیم کی سیاست میں اداروں کو گھسیٹنے کی روش ترک کردی جائے۔ اسی میں ملک‘ عوام اور سسٹم کا فائدہ ہے۔ 

مزیدخبریں