دو چار برس کی بات نہیں یہ نصف صدی کا قصہ ہے
1965ء کی بات ہے‘ میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال راولپنڈی کالج میں فرسٹ ائیر کا طالبعلم تھا ۔میرے کالج سے چند قدم کے فاصلے پر روزنامہ تعمیر راولپنڈی کا دفتر تھا۔ سعود ساحر اسی ادارے سے وابستہ تھے۔ میں انکے پاس ’’طابعلم کی ڈائری‘‘ لے کر جاتا‘ وہ اپنے نوک قلم سے اس کو چار چاند لگا دیتے سعود ساحر سے یہیں سے تعلق قائم ہوا جو بعد ازاں عمر بھر قائم رہا۔ جب میں نے عملی صحافت میں قدم رکھا تو سعود ساحر کو جہاں میرے استاد کا درجہ حاصل تھا وہاں وہ میرے لئے قائد کی حیثیت رکھتے تھے۔ ہم نے چار پانچ عشرے تک اکھٹے ایک ہی پلیٹ فارم پر صحافتی سیاست کی ایک ہی ہے ایک ہی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) سے وابستہ رہے۔ سعود ساحر مجید نظامی ؒ کی سوچ و فکر کے علمبردار تھے وہ دائیں بازو کی صحافت کے سر خیل تھے۔ بظاہر وہ جسمانی لحاظ سے ایک کمزور شخص تھے لیکن جرأت و استقامت کا بلند و بالا پہاڑ تھے اپنے دور کے بڑے بڑے آمروں کی محافل میں ایسا سوال داغتے کہ ان کی چیخیں نکلوا دیتے۔ مرحوم کی وفات سے صحافت کا ایک تابناک اور درخشندہ باب تمام ہوگیا۔ مرحوم کی وفات کے وقت 81برس عمر تھی۔ مرحوم کا تعلق سہارنپور سے تھا لیکن انہوں نے کبھی اپنی شناخت سہارنپور کے حوالے سے نہیں کرائی مرحوم کے بڑے صاحبزادے کرنل احمد سعود نے پیشہ سپہ گری اختیار کیا جبکہ دوسرے صاحبزادے عمر فاروق کا شمار ملک کے سینئر صحافیوں میں ہو تا ہے۔ مرحوم سعود ساحر کے بڑے بھائی حکیم سہارنپوری ملک کے نامور عالم دین و طبیب تھے ۔ سعود ساحر کا مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کے ساتھ قابل اعتماد رشتہ تھا ان کو کشمیری سیاست پر دسترس حاصل تھی ۔ وہ سرد گرم موسم میں انکے ساتھ رہے۔ 2005کے تاریخی دورہ بھار ت میں سعود ساحر اور سلطان سکندر ان کے ہمراہ تھے۔ وہ اس دورہ کے دوران سہارنپور کی یادیں تازہ کرتے رہے۔ کوئی صحافی ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاء الحق ، نواز شریف ، بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی پریس کانفرنس میں جوسوال کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ وہ شاہ صاحب کے نصیب میں ہوتی ۔ اگر کسی صحافی کو کانٹا ہی کیوں نہ چبھ جائے۔ سب سے پہلے وہ اس کی مدد کو پہنچتے تھے ۔انہیں پیشہ صحافت کا فور سٹار جنرل انکی جرات و بہادری کی وجہ سے کہا جاتا تھا۔ جب ان کا قلم تحریر کے ذریعے جذبات کی عکاسی کرتا تو الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے شاعرانہ مزاج تو رکھتے ہی تھے لہذا وہ اپنی تحریروں کو شاعرانہ ذوق کی وجہ سے مزید خوبصورت بنا دیتے۔ بلاشک و شبہ سعود ساحر کا شمار دور حاضرہ کے بڑے’’ سیاسی تجزیہ ‘‘ کاروں میں ہوتا ہے جنہوں عملی صحافت میں بہ نفس نفیس حصہ لیا اور بڑے صحافتی ایڈونچر کئے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے باغی’’ لیڈر ‘‘ افتخار تاری کو آزاد جموں کشمیر میں واقع ’’دلائی کیمپ‘‘ میں قید کر دیا ۔ یہ سعود ساحر ہی تھے جو خاکروب بن کر افتخار تاری تک جا پہنچے اور پھر جب سعود ساحر کی ’’دلائی کیمپ‘‘ کی سٹوری شائع ہوئی تو یہ سب سے بڑا صحافتی سکوپ تھا سعود ساحر نے لا تعدا د صحافتی ایڈونچر کئے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کیخلاف تحریک زوروں پر تھے ۔ 99ویسٹریج پشاور روڈ راولپنڈی چوہدری ظہور الٰہی کی رہائش گاہ حکومت مخالف سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھی ۔ جہاں ’’ یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک ‘‘ کی اعلی قیادت کے اجلاس ہوا کرتے تھے ۔سعود ساحر اس ٹیبل کے نیچے چھپ کر رپورٹنگ کرتے رہے ۔انکی ایکسکلیوژو سٹوریز نے پورے ملک میں دھوم مچا رکھی تھی لیکن ایک روز معمولی سی بے احتیاطی کی وجہ سے وہ پکڑے گئے چونکہ ان کا شمار ملک کے پایہ کے صحافیوں میں ہوتا تھا اور وہ چوہدری ظہور الٰہی کے ذاتی دوست بھی تھے لہذا اس وقت کی اپوزیشن کے لیڈروں نے ان کی اس بات کا برا نہ منایا ۔ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ پر تھی نوابزادہ نصر اللہ خان مفتی محمود سے ملاقات کیلئے اسلام آباد سے ہری پور جیل کیلئے روانہ ہوئے تو سعود ساحر مجھے بھی اپنے ہمراہ لے گئے انہوں نے نوابزادہ نصر اللہ کی گاڑی کا ہری پور جیل تک تعاقب کر کے بڑی خبر بنا ڈالی ۔ سعود ساحر روزنامہ تعمیر ، نوائے وقت جسارت ، امت سے وابستہ رہے طویل عرصہ تک ہفت روزہ زندگی اور تکبیر کی اسلام آباد میں نمائندگی کی سعود ساحر پایہ کے سیاسی تجزیہ کار تھے سیاست دان ان کے سیاسی تجزیوں سے استفادہ کرتے وہ پس پردہ ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کا منظر عام پر لانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ سعود ساحر کے گروپ کا کئی سال تک راولپنڈی و اسلام آباد کی صحافتی سیاست میں ان کا طوطی بولتا رہا ۔ اگرچہ ان کا تعلق دائیں بازو کے صحافیوں سے تھا لیکن وہ پوری صحافتی برادری میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی میں اپنی شاندار تحریروں کے باعث بڑا نام کمایا لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’’ختم نبوت‘‘ پرکتاب کا لکھنا ہے وہ ایک بہت بڑے عاشق رسولﷺ تھے۔ انہوں نے 1974میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے کی پارلیمنٹ کی کارروائی قلمبند کر کے آنے والی نسلوں کے لئے ایک قیمتی سرمایہ چھوڑا ہے وہ روزنامہ امت کراچی میں اپنی یاداشتیں لکھ رہے تھے کہ موت کے فرشتہ نے انہیں مہلت نہ دی انٹرویو نگاری میں ان کوئی ثانی نہیں تھا ۔ میں نے ملک کے بڑے لیڈر وں کو ان کے انٹرویو کا انٹرو لکھنے کی فرمائش کرتے سنا ۔ ان کا شمار ملک کے ان بڑے صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے بڑے صحافتی معرکے سر کئے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں آزاد صحافت کی بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی حکومت مخالف صحافیوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا یا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا جاتا سعود ساحر ، میرا اور میاں منیر کا گہرا تعلق رہا میں وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کا واحد اخبار نویس ہوں جس نصف صدی سے زائد عرصہ سے ان تعلق خاص تھا ہمارے درمیان بے پناہ بے تکلفی تھی ہم پارلیمنٹ میں ہی اکثر و بیشتر اکھٹے مولانا احمد الرحمنٰ کی امامت میں جمعہ کی نماز پڑھتے پارلیمنٹ ہائوس مسجد کے امام کے حجرہ میں مولانا فضل الرحمنٰ سے ملاقات کا موقع ملتا سعود ساحر کو ان کی پیشہ وارانہ خدمات پر ’’ پرائیڈ آف پر فارمنس‘‘ ملا لیکن صحافت میں ان کا سے کہیں بلند مقام تھا۔ شاہ صاحب اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں کچھ عرصہ تک بائیں بازو کی تحریک سے بھی وابستہ رہے لیکن سید ابولاعلیٰ مودودی کی فکر سے متاثر ہوکر عمر بھر اسلام اور پاکستان کے مخالفین سے بر سرپیکار رہے ۔