اسلام امن و آشتی کا دین ہے۔لیکن افسوس اسلام دشمن شدت پسنداس سے ٹکرائو کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور اگر اسلام دشمنی کیلئے کوئی موقع میسر نہ آئے تو خود حالات و واقعات پیدا کر لیتے ہیں اور اس کی حالیہ مثال فرانس میں پیش آنے والا واقعہ ہے جس میں ایک سکول ٹیچر اپنی مکروہ حرکت سے خود بھی ہلاک ہوا اور ارادتاً مذاہب کے ٹکرائو کو پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا حیرت کی بات یہ کہ فرانسیسی صدر میکرون جو کہ رومن کیتھولک مذہب سے تعلق رکھتا ہے کے اس واقعہ کے نتیجہ میں کیے جانے والے اقدامات بھی اسلام دشمنی کا شاخسانہ ثابت ہوئے۔ اسلام مخالف انتہا پسند دشمنوں کا جب دل کرتا ہے اسلامی دنیا میں اضطراب اور بے چینی پیدا کرنے کیلئے شر پسندی کے اس مکروہ عمل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔آپﷺ کی ذات گرامی پر ہرزہ سرائی کرنیوالے اسی دن سے وجود میں آنا شروع ہوگئے تھے جس دن سے رب باری تعالیٰ نے آپ ﷺکا ذکر بلند کیا او رملعون افراد کا قبیلہ انفرادی شکل میں کہیں قیام پاکستان سے قبل راج پال تو کہیں قیام پاکستان کے بعد سلمان رشدی یا پھر تسلیمہ نسرین کی شکل میں نظر آتا ہے اور اسلام دشمن دل میں چھپے بغض کی بنا پر یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ نے ہمیشہ ہی شاتم قبیلہ کو اعلیٰ ایوارڈوں اور بھر پور پذیرائی سے نوازا ہے جو نام نہاد لبرلز کے انداز بیٹھی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور اسلامی بغض کی مثال ہے۔ خاکے آج کی بات نہیں2005میں ڈنمارک کے اخبار ’’جلاینڈ پوسٹن ‘‘ نے تواتر اسے اپنے اخبار میں خاکوں کی اشاعت کر کے مسلم دنیا کا دل دکھایا اور اسلامی ممالک کے رد عمل کے نتیجہ میں ڈنمارک کی حکومت نے اخبار کیخلاف عدالتی رٹ کی جو کہ ایک سال بعد خارج کردی گئی اور ڈینیش حکومت نے مزید کارروائی سے انکار کر دیا پھر اسی طرح فرانس کے مشہور ہفتہ وار اخبار’’ چارلی ہیبو ‘‘ نے خاکوں کا سلسلہ 2006 سے وقفوں سے جاری رکھا جس کے نتیجہ میں اس شیطانی اخبار کے دفتر پر 2011 اور 2015 میں حملے ہوئے اور اب پھر اس فرانسیسی اخبار نے بنیاد پرست ٹیچر کی ہلاکت کے بعد پھر کھلے بندوں خاکوں کی اشاعت کی اور اس شر انگیزی کو فرانسیسی صدر نے آزادی رائے کے نام پر مزید ہوا دیتے ہوئے ان خاکوں کی نمائش بڑی بڑی عمارتوں پر کروا دی اور اسکے ساتھ ساتھ قتل ہونے والے ٹیچر کو اعلیٰ ترین فرانسیسی اعزاز سے نوازا ۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں اسلام دشمن انتہا پسند قوتیں مسلمانوں کو اشتعال دلانے کیلئے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد پورے کر کے تسکین حاصل کرتی ہیں اور پھر آزادی اظہارے رائے کیلئے یک جہتی کے نام پر یہود و نصاریٰ کسی کی پرواہ کئے بغیر آگ سے کھیلتے ہیں اور جب یہ آگ انکے گھروں اور امن کو تباہ کرتی ہے تو آہ و کناں کرتے ہیں لہذا دنیا کے امن کو خطر میں ڈالنے سے بچنے کیلئے اقوام عالم کو آزادی اظہار کے اس مکرو کھیل کو روکنا ہو گا اور یہ بھی جاننا ہو گا کہ صحافت یا آزادی اظہار رائے کبھی بھی مذاہب سے بالا تر نہیں ہو سکتی دنیا کے عقائد اور مذہبی نظریات کا احترام بلا تفریق ہر قوم ،قبیلہ،تہذیب اور معاشرتوں کو لازمی طور پابند کرنا ہو گا او ر اب یہ وقت ہے کہ معاملہ کی سنگینی اور نزاکت کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کو عالمگیری سطح پر ایسا قانون اور ضابطہ مرتب اور عملد درآمدکروانا چاہیئے جو آزادی اظہار رائے کی آڑ میںناموس رسالت کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو مجرم قرار دے کر قرار وقعی سزا دے سکے اس تمام منظر نامہ میں یا ماضی کے پس منظر نامہ میںمسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کا کردار کہیں نظر نہیں آتا چاہیئے تو یہ تھا کی تمام 52 اسلامی ممالک ایک پلیٹ فارم کو صیح معنوں میں استعمال کرتے ہوئے شروع سے ہی اسلام دشمن شر پسندوں کیلئے موثر حکمت عملی اپناتے تو ایسی نوبت نہ آتی لیکن افسوس ہر ملک اپنے ریاستی مفادات کو امہ کیلئے قربان کرنے کیلئے تیار نہیں اور یہ وجہ ہے کہ اس لولی لنگڑی تنظیم جو کہ ابھی تک پوست پی کر سو رہی ہے کا انتظار کئے بغیر چند اسلامی ممالک اور انکے شہریوں نے فرانس کا تجارتی بایئکاٹ کر کے دن میں تارے دکھا دیئے لیکن یہ ایک وقتی اور انفرادی کارروائی تھی لیکن ایسے فتنوں کے مستقل تدارک کیلئے تمام اسلامی ممالک کو از سر نو اتحاد اور اپنے منشور کا جائزہ لینا ہو گا اور اقوام عالم کو حیوانی و شیطانی بے لگامی اور انسانی و اخلاقی ضابطوں اور تقا ضوں کے درمیان تمیز کرنا سیکھنا ہو گی ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’ بے شک آپ کا دشمن بے نام و نشان رہے گا‘‘
٭…٭…٭
ناموس رسالتﷺ : بین الاقوامی قانون کی اشد ضرورت!!
Nov 08, 2020