معزز قارئین ! مجھے نہیں معلوم کہ ’’ "Superpower" امریکہ میں 3 نومبر کے صدارتی انتخاب کے بعد دو بڑی سیاسی جماعتوں "Republican Party"۔ اور۔ "Democratic Party" کے امیدواروں کے ’’متنازع صدارتی انتخاب ‘‘کا حشر نہ جانے کیا ہو ؟‘‘ ۔ڈونلڈ ٹرمپ صاحب اور جو بائیڈن صاحب کے بقول ( اُن میں تو) قانونی جنگ شروع ہو چکی ہے ؟ سوال یہ ہے کہ کیا اِس ’’قانونی جنگ ‘‘ کا فیصلہ اقوام متحدہ کرے گی ؟ میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست ‘‘ تو کہتے ہیں کہ …؎
’’چند مُلکوں نے بنایا، سامراجِ ؔمُک مُکا!
بن گئی ، اقوامِ متّحدہ ، سماج ِ ؔمُک مُکا!‘‘
…O…
تِیسری دُنیا سے ، لیتے ہیں ، خراجِ مُک مُکا!
جاری و ساری ، ہے یہ کیسا ، رواجِ مُک مُکا!
…O…
’’پاک چین دوستی !‘‘
مَیں سوچ رہا ہُوں کہ ’’ جب تک امریکہ کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائدین میں ہارنے یا جیتنے کا فیصلہ نہ ہو جائے اور امریکہ کی50 ریاستوں میں صلح صفائی کا ماحول نہ پیدا ہوجائے تو کیوں نہ مَیں اپنے پڑوسی ، آزمودہ دوست ملک ’’عوامی جمہوریہ چین ‘‘ سے دوستی کو مضبوط بنانے کا تذکرہ کروں !‘‘۔
’’ فرمانِ مدینتہ اُلعلم ؐ ! ‘‘
معزز قارئین ! ’’مدینۃ اُلعلم ‘‘ ( علم کے شہر ) حضور پُر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے مسلمانوں کو ہدایت کی تھی کہ ’’ علم حاصل کرو واہ تمہیں چین ہیؔ کیوں نہ جانا پڑے !‘‘ ۔ دراصل اُس وقت چین میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا اور وہاں لکڑی کے "Blocks" ( ٹھپوں ) کے ذریعے کتابیں چھپنا شروع ہو گئی تھیں ۔ یقینا ’’ مدینۃ اُلعلم ؐ ‘‘ کو اُس کا ادراک بھی ہوگا؟ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران چیئرمین ’’مائوزے تنگ ‘‘ (Mao Zedong) کی قیادت میں عوامی جمہوریہ چین نے پاکستان کی بھر پور امداد کی تھی پھر چین اور پاکستان کے عوام میں جذباتی اور گہری دوستی قائم ہو گئی تھی۔
’’ مائو کیپ اور چینی طرز کا کوٹ ! ‘‘
وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر ہر حکمران اور اُنکی پارٹی کے لیڈروں نے عام جلسوں میں ’’ مائو کیپ ‘‘ (Mao Cap) سجا کر اور چینی طرز کا بند گلے کا کوٹ پہن کر عوام سے تالیاں بجوائیں لیکن ،اُنہوں نے عوام کو نہیں بتایا کہ اُنہوں نے دورہ ٔ ’’ عوامی جمہوریہ چین ‘‘ میں کون سا علم سیکھا؟
معزز قارئین ! 1965ء کے بعد پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین کے متعدد سیاستدانوں‘ اربابِ علم و فضل ، اساتذہ ، شاعروں ، ادیبوںاور صحافیوں نے ’’پاک چین دوستی ‘‘ کو مضبوط بنانے کیلئے دوستی کا سفر جاری رکھا اور کئی شخصیات (خواتین و حضرات ) نے کتابیں بھی لکھیں جس کے باعث دونوں ملکوں کے ہر طبقے کے لوگوں میں اِس دوستی کو، مضبوط بنانے کے جذبات پیدا ہُوئے ( ہو رہے ) ہیں ۔ مجھے بھی ’’ مدینۃ اُلعلم ؐ ‘‘ کے فرمان کے مطابق دو بار عوامی جمہوریہ چین میں مختلف طبقات سے ’’علم سیکھنے ‘‘ کا موقع ملا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے دو بار عوامی جمہوریہ چین کا دورہ کرنے کا موقع ملا ۔
پہلی بار اگست 1991ء میں ( اُن دِنوں) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد کی قیادت میں 11 سینئر صحافیوں کی "Eleven" کے رُکن کی حیثیت سے اور دوسری بار وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے 1996ء میں ۔ اُن دوروں میں مَیں چینی صحافیوں اور غیر صحافیوں سے جو بھی علم حاصل کر سکا کیا۔ دونوں بار شیشے کے ایک "Box" میں جناب ’’ مائوزے تنگ ‘‘ کے جسدِ خاکی کو بھی دیکھا تو، مجھے بہت سکون حاصل ہوا۔
’’چینی کھلونے !‘‘
معزز قارئین ! اُستاد شاعر شاد عظیم آبادی ؔ نے پاکستان کے ہر حکمران سے مخاطب ہو کر ہر ضرورت مند ،خواہش مند اور تمناؔئی اِنسان کی طرف سے کہا تھا کہ …؎
’’تمناؤں میں ،الجھایا گیا ہوں!
کھلونے دے کے ،بہلایا گیا ہوں!
…O…
لیکن مَیں آپ کا تعارف ، لاہور میں تحریک پاکستان کے ایک نامور بزرگ کارکن جناب عبداُلرشید مغل صاحب کے بھانجے اپنے دوست رانا عامر امین سے تعارف کرا رہا ہُوں جو گذشتہ 50 سال سے تقریباً 2 سو بار ’’ عوامی جمہوریہ چین ‘‘ کے دورے پر جاچکے ہیں اور پاکستانی بچوںکیلئے کھلونے درآمد کرتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’ ’ مَیں جب اِن 50 سالوں میں بے شمار چینی اور پاکستانی بچوں کو پروان چڑھتے دیکھتا رہا تومجھے بے حد خُوشی ہُوتی ہے‘‘ ۔
معزز قارئین ! 1996ء کے دورہ چین کے بعد مَیں نے ’’ ہمالہ سے عظیم تر ہے پاک چین دوستی !‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی جو میرے دوست چیئرمین ’’پاکستان کلچرل فورم ‘‘ اسلام آباد برادرِ عزیز ظفر بختاوری نے پاکستان میں دُنیا بھر کے سفارتخانوں میں پھیلا دِی تھی۔ نظم کے تین بند پیش خدمت ہیں …؎
’’خُلوص و بے ریائی کے ،
حسِین گُل کِھلے ہُوئے!
سدا سے ہیں ، عوام کے، دِلوں سے ،
دِل مِلے ،ہُوئے!
محبتّوں کی دُھن پہ ،
رقص کر رہی ہے زندگی!
ہِمالہ سے عظیم تر ہے ،
پاک چین ،دوستی!
…O…
خُدا کی بارگاہ میں ،
دانائی ہی قبول ہے!
’’ تم پائو عِلم چین سے‘‘
فرمودۂ رسولؐ ہے!
اُس دَور میں بھی، چین تھا،
مَنّبعٔ عِلم و آگہی!
ہِمالہ سے عظیم تر ہے ،
پاک چین دوستی!
…O…
کشمیر ہو ،یا ہو عراق ،
یا سر زمینِ ،فلسطیں!
چمکے گی شمّع حُریتّ ،
ہوگا اُجالا بِالیقیں!
عِفرِیت ظُلم و جَور کو،
کرنا پڑے گی ،خُود کُشی!
ہِمالہ سے عظیم تر ہے ،
پاک چین دوستی!‘‘
………………… (ختم شد)