بہاول پور کے قریب بدھ مذہب کی عبادت گاہ   منہدم ہونے  کے قریب


احمد پور شرقیہ( شیخ عزیز الرحمن سے) بہاول پور شہر سے تقریباً 30 منٹ ڈرائیو کی مسافت پر یہ بدھ مذہب کے ماننے والوں کی یہ عبادت گاہ انتہائی شکستہ حالت میں موجود ہے یہاں کبھی دنیا کے قدیم ترین مذہب بدھ مت کے دور میں راجہ کنشکا کے دور حکومت میں بدھ مذہب کی معبد گاہ یا اسٹوپا بھی موجود تھا ۔ اب صرف آثار باقی رہ گئے ہیں اور وہ جگہ ماضی میں بدھ مت مذہب کی معروف عبادت گاہ جو اپنے زمانے کی اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کی درس گاہ تھی اب وہاں صرف مٹی کا ایک مینار اور گردونواح میں قبرستان رہ گیا ہے کہا جاتا ہے کہ یہاں سٹوپا بدھ مت مذہب کے زمانے کی یونیور سٹی اور ایک عظیم الشان عبادت گاہ تھی  اب صرف یادگار کے طور پر بچ گئی ہے۔ 1870ء میں اس آثار قدیمہ کو پہلی مرتبہ دریافت کیا گیا تھا اور اس وقت ان کی اونچائی زمین سے تقریباً 53 فٹ بلند تھی اور اب صرف 25 فٹ بلند حصہ زمین سے باہر نظر آتا ہے اس کا ڈھانچہ ایک گول ٹاور کی طرح ہے جو بڑے سائز کی اینٹوں کی مدد سے بنا ہوا ہے اور یہ شاید بدھ مت کی واحد یادگار ہے جو سٹویا کے فن تعمیر اور یہیں سے نکالی جانے والی ایک پلیٹ کے باعث بدھ مت کے دور کی معلوم ہوتی ہے جس پر اس دور کی عبارت کندہ ہے یہ ٹاور نما ڈھانچہ دراصل بدھ مت کے اسٹو پا کے آثار ہیں جو شہنشاہ کنشکا اعظم کے دور حکومت کے 11 ویں سال میں تعمیر ہوا تھا یہ سٹوپا مٹی کی اینٹوں سے تعمیر ہوا تھا تاہم اس کی بنیادوں میںپکی ہوئی اینٹیں استعمال کی گئی تھیں کہا جاتا ہے کہ اس سٹوپا کی بنیاد ایک مربع ڈھانچے پر تھی جس کے اوپر گولائی میں یہ سٹوپا تعمیر کیا گیا اور اس کا انڈہ نما گنبد پر اختتام ہوتا تھا جو اب حوادث زمانہ کے باعث اپنے آثار کھو چکا ہے یہاں سے لوگ اپنی ذاتی ضرورت چکنی مٹی کود کھود کر لے جا کر ساتھ ہی واقع قبروں پر لپائی کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔اگر یہی حالات رہے تو بہت جلد ہی ہم اس تاریخی ورثے سے محروم ہو جائیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...