اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی۔ ہمارا ایک مخصوص کردار ہے اور ہم صرف فیصلہ دے سکتے ہیں۔ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں اور پارلیمنٹ کو مضبوط کریں۔ عدلیہ بھی اختیارات کی تقسیم کے اصول کو مدنظر رکھنے کی پابند ہے۔ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کیا۔ چیف جسٹس اطہر نے کہا کہ میں کوئی کریڈٹ نہیں لینا چاہتا، ساتھی ججز اور متحرک بار کے بغیر کچھ ممکن نہ تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ دیگر ہائی کورٹس کی طرح نہیں، اس کا ایک الگ سٹیٹس ہے، یہ صرف ایک علاقہ کی ہائیکورٹ نہیں، فیڈریشن کی نمائندگی کرتی ہے۔ وکلاء کے حوالے سے جس واقعہ کی بات کی گئی، اس میں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ ہم نے اپنے فیصلوں میں بار بار دہرایا ہے کہ قانون کے حکمرانی نہیں، یہ بھی فیصلوں میں لکھا کہ قانون صرف اشرافیہ کے لیے ہے۔ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں اور پارلیمنٹ کو مضبوط کریں۔ ہماری آدھی سے زیادہ زندگی ڈکٹیٹرشپ میں گزر گئی۔ سویلین سپرمیسی اور آئین کی سپرمیسی کا سوال ہوا جس کا جواب نفی میں ہے۔ آئین کی عمل داری اسی وقت ہو سکتی ہے جب مائنڈ سیٹ تبدیل ہو۔ سیاسی لیڈرشپ آئین کی عمل داری کو مضبوط کر سکتی ہے۔ ہمارے ادارے کی جوابدہی پبلک سکروٹنی کے ساتھ ہے۔ عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا چاہیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج و نامزد چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکلا تحریک میں اہم کردار ادا کیا، ہیومن رائٹس ایشو پر خصوصی توجہ دی۔
ریاست ذمہ داریاں نبھانے میں نا کام ، قانون نہیں اشرافیہ کی حکمرانی ہے : جسٹس اطہر
Nov 08, 2022