پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا معاملہ 


مسلح جدوجہد یا پہیہ جام جیسی تحاریک کے بغیر ’’انقلاب‘‘ نہیں لایاجاسکتا۔ ان کے علاوہ سیاسی اہداف کے حصول کے لئے جو حربے اختیار ہوتے ہیں وہ غیر سیاسی فریقین کو ’’انتشار‘‘ کی جانب دھکیلتے محسوس ہوتے ہیں۔اس کا خوف ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے تو ریاستی بندوبست کے محافظ ادارے حتمی کردار ادا کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔نام نہاد جمہوری نظام دائمی اداروں کے متحرک ہوجانے کے بعد مضبوط ہوجانے کے بجائے کمزور تر ہوجاتا ہے۔
سیاسی عمل کی مبادیات کے بارے میں جو کلیدی نکات ابتدائیے میں بیان ہوئے ہیں انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے عمران خان صاحب میری دانست میں مناسب حکمت عملی اختیار کرتے نظر نہیں آرہے۔عاشقان عمران کی اکثریت میرے بیان کردہ خدشات سے مگر اتفاق نہیں کرے گی۔ انہیں ٹھنڈے دل سے زیر غور لانے کے بجائے مجھے ’’لفافہ‘‘ ہونے کے طعنے دے گی۔ نرم دل ناقدین بھی طعنہ زنی کے بجائے میری رائے کو یہ سوچتے ہوئے نظرانداز کرنے کو ترجیح دیں گے کہ میں ’’نظام کہنہ‘‘ کے خوف سے سہما ایک فرسودہ ذہن ہوں۔اس حقیقت سے آشنا ہی نہیں ہوپایا کہ زمانہ بدل گیا ہے۔پاکستان کی 60فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ریاست اپنے روایتی حربوں سے انہیں دھمکا نہیں سکتی۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا بھی ہے جس نے ہر شخص کو ’’انقلابی‘‘ بنارکھا ہے۔
جو خیالات عاشقان عمران کے اذہان میں اُبھرسکتے ہیں ان کے عاجزانہ ادراک کے باوجود مصر رہوں گا کہ ’’قانونی‘‘ لڑائی کو ’’قانون‘‘ کے میدان ہی میں کھیلنا چاہیے۔ یہ فریاد کرتے ہوئے ’’تاریخ‘‘ کا حوالہ دینے کو مجبور ہوں۔لاہور میں 1974ء کے برس ان دنوں پیپلز پارٹی سے ’’منحرف‘‘ ہوکر ذوالفقار علی بھٹو کے بلند آہنگ ناقد بنے احمد رضا قصوری کے والد فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ان پر حملہ کرنے والے جائے واردات سے فرار ہوگئے۔ احمد رضا قصوری نے مگر نہایت ضد سے پولیس کو ایف آئی آر لکھنے کو مجبور کیا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مذکورہ ایف آئی آر میں اپنے والد کے قتل کا مرکزی ذمہ دار نامزد کردیا۔مذکورہ ایف آئی آر پر سرسری کارروائی بھی ہوئی تھی۔’’مناسب ثبوت‘‘میسر نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر اسے ’’داخل دفتر‘‘ کردیا گیا تھا۔ ریکارڈ سے تاہم وہ ایف آئی آر خارج نہ ہوئی۔ بعدازاں احمد رضا قصوری ’’نیویں نیویں‘‘ ہوکر پیپلز پارٹی میں واپس بھی لوٹ آئے۔معاملہ نظر بظاہر رفع دفع ہوگیا۔
جنرل ضیاء کے نافذ کردہ مارشل لاء کے بعد مگر 1977ء میں وہی ایف آئی آر ریکارڈ سے جھاڑپونچھ کر نکال لی گئی۔اس کی بنیاد پر طویل عدالتی عمل کا آغاز ہوا۔ اس کے دوران کئی ’’سیانے‘‘ اس خدشے کا اظہار کرتے رہے کہ بھٹو صاحب کے وکلاء ان کے خلاف عائد ہوئے الزامات کا دفاع’’قانونی‘‘کے بجائے ’’سیاسی‘‘ دلائل کے ذریعے کررہے ہیں۔میں اس رائے سے متفق نہ تھا۔حقیقت کچھ بھی رہی ہو۔ مذکورہ ایف آئی آر ہی بالآخر اپریل 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سبب ہوئی۔
عمران خان صاحب مذکورہ تناظر میں انتہائی خوش نصیب ثابت ہوئے۔ قاتلانہ حملے سے معجزانہ انداز میں بچ گئے۔ ربّ کریم انہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ ان پر قاتلانہ حملہ کرنے والا بھی جائے وقوعہ پر تحریک انصاف کے ایک نوجوان کارکن کی قابل ستائش دلیری کی وجہ سے گرفتار ہوچکا ہے۔ مناسب یہی ہوتا کہ ابتدائی تفتیش کے بعد مقامی پولیس اس کے خلاف فوری ایف آئی آر بھی ریکارڈ میں لے آتی۔
قانونی اعتبار سے انتہائی ضروری یہ امر بھی تھا کہ زخمی ہوئے عمران خان صاحب کو فوری طورپر ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے لئے قریب ترین سرکاری ہسپتال لے جایا جاتا۔ ایسے سرکاری ہسپتالوں میں ’’میڈیکو لیگل افسر‘‘بھی ہمہ وقت میسر ہوتا ہے۔وہ زخموں کی بابت ابتدائی رپورٹ سرکاری ریکارڈ کے لئے تیار کرتا۔اس کے بعد خان صاحب کو ان کی خواہش کے مطابق کسی اور ہسپتال لے جایا جاسکتا تھا۔عمران خان صاحب مگر زخمی ہونے کے باوجود جائے وقوعہ سے کم از کم دو گھنٹے کی مسافت پر واقع شوکت خانم ہسپتال چلے گئے۔ وہاں میسر انتظامات کی بدولت اپنے زخموں کی دیکھ بھال کے بعد فیصلہ کیا کہ ان کے قتل کا ذمہ دار وزیر اعظم ،وزیر داخلہ اور ایک اہم ریاستی ادارے کے سینئر افسر کو ٹھہرایا جائے۔
یہ خبر ملتے ہی میرے وسوسوں بھرے دل نے طے کرلیا کہ معاملہ ’’بگڑ‘‘ گیا ہے۔ بدقسمتی سے میں درست ثابت ہوا۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں تحریک انصاف حکمران ہے۔وزیر اعلیٰ مگر مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھتے ہیں۔چودھری پرویز الٰہی عمران خان صاحب کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر درج کروانے کو رضا مند نہیں ہیں۔پنجاب پولیس بھی اس ضمن میں آمادہ نظر نہیں آرہی۔
پولیس جب کسی مدعی کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر درج کرنے کو رضا مند نہ ہو تو فوری طورپر عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے۔عمران خان صاحب یہ کالم لکھنے تک اپنے وکلاء کو کسی عدالت بھی نہیں بھیج پائے تھے۔ان کا اصرار ہے کہ جن افراد پر وہ شبے کا اظہار کررہے ہیں فوری طورپر اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں۔ ان کے مطالبے کو پذیرائی میسر نہ ہوئی تو منگل کے دن سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کو اسی مقام سے دوبارہ جاری کرنے کا اعلان کردیا جہاں ان پر حملہ ہوا تھا۔
دریں اثناء عمران خان صاحب کے لگائے الزامات سے تلملا کر افواج پاکستان کے ترجمان ادارے نے ایک سخت بیان بھی جاری کردیا ہے۔حکومت سے اس کے ذریعے استدعا ہوئی کہ ان کے ادارے کو ’’بدنام‘‘ کرنے کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز ہو۔ وزیر اعظم نے اس کی جانب سرعت سے بڑھنے کے بجائے عندیہ دیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے درخواست کریں گے کہ وہ ازخود عمران خان صاحب پر ہوئے حملے کی تحقیقات کی نگہبانی کرے۔ قصہ مختصر معاملہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہورہا ہے۔مناسب قانونی راہ اختیار نہ کرنے کی وجہ سے جو خلاء پیدا ہوا ہے اسے سازشی کہانیوں کا طوفان پُرکرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم اس کی وجہ سے مزید گہری ہورہی ہے جو ’’انتشار‘‘ کے خدشات کو مزید بھڑکا رہی ہے۔اس پہلو کی جانب مگر ہم توجہ ہی نہیں دے رہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...