سابق وزیراعظم عمران خان نے صحتمند ہوتے ہی احتجاجی تحریک شروع کرنیکاعندیہ دیا ہے اورکہا ہے کہ مجھے پتا تھا کہ وزیر آباد یا گجرات میں مجھ سلمان تاثیر کی طرح قتل کروانے کا منصوبہ بنایا گیا۔انہوں نے حملے کو وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک حاضرانٹیلی جنس آفیسرکی منصوبہ بندی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ 3 لوگ مستعفی نہیں ہونگے تب تک احتجاج جاری رہے گا۔ جواباً پاکستانی فوج کی جانب سے بیانات کو غیرذمہ دارانہ الزامات قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی گئی۔آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ حکومت عمران جھوٹے گھٹیا الزامات پر قانونی کارروائی کرے،اورکسی کوادارے کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ فوج کا اپنا اندرونی احتسابی نظام موجود ہے۔ادارہ اپنے افسران اور جوانوں کی حفاظت کرے گا۔ حملے سے متعلق سوالات اس حقیقت کی بنیاد پر اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ صوبہ پنجاب میں ہوا جہاں پی ٹی آئی خود حکمران ہے، تحقیقات شروع ہونے سے پہلے ہی بغیر ثبوت الزام تراشی معقول رویہ نہیں ہے، بالخصوص جب ملزم گرفتار کیا جاچکا ہے، شفاف تحقیقات کا راستہ ہموار کیا جانا چاہیے۔مکمل تحقیقات تک سب اس کے نتائج کا انتظار کریں جس کے لیے ایف آئی آر کا اندراج ضروری ہے لیکن تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی،حالانکہ ایسے معاملات میں سرکاری ہسپتال میں طبی معائنے کے بعد میڈیکو لیگل رپورٹ تیار کی جاتی اور اس کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرائی جاتی ہے۔ تاخیر کی صورت میں تحقیقاتی عمل متاثر ہوتا ہے اور عدالتوں میں مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے۔عمران خان پر حملے کی خبر نے پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کے میڈیا میں نمایاں جگہ لی۔ عالمی میڈیا نے لکھا کہ پاکستانی سیاست میں انتشار مزید گہرا ہوگا، ہمسایہ ملک پاکستان میں افراتفری پر سکھ کا سانس لے رہا، پاکستان کی سیاسی کشمکش اور ہنگامہ آرائی سے بھارت انتہائی خوش ہے۔اس صورتحال پر انڈین میڈیا اسے اچھی خبر قرار دے رہے ہیں۔عمران خان پر قاتلانہ حملے نے نہ صرف پاکستان کو مزید گہرے انتشار میں ڈال دیا ہے بلکہ ہندوستان کے لیے نئے اسٹریٹجک عوامل کوجنم دیاجن میں پاکستان کی طاقتور فوجی اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے مستقبل سے لے کراس کے سیاسی استحکام شامل ہے۔ انڈیا خوش ہے کہ اندرونی لڑائی پاکستانی فوج کے ڈھانچے کو کمزورکررہی ہے، اندرونی انتشار سے ان کا بھارتی سرحدوں سے دھیان بٹ جائے گااورمعاشی بدحالی خطرناک رخ اختیار کر رہی ہے۔ پاکستان کے اندر عمران خان پر حملہ بڑھتے ہوئے اختلاف، فوج اور سیاسی سطح پر تقسیم کو اجاگر کرتی ہیں۔
وزیراعظم کے عہدے سے برطرف ہونے کے بعد سے، عمران خان نے طاقتور ادارے کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک پرخطر مہم کا آغاز کیا ہے۔ یہ حملہ ایک وارننگ شاٹ لگتا ہے، جوپاکستان کی سیاست کو مزید غیر مستحکم کرے گا اورسیاسی ومعاشی ابتری پہلے سے مزید بگڑ جائے گی کیونکہ آج پاکستانی سیاست کی ساکھ سب سے نیچے پہنچ چکی ہے۔ یہ حملہ ملک بھر میں مزید سیاسی تشدد کا سبب بنے گا، عوام کو معاشی طور پر نقصان اٹھانا پڑے گا۔ عمران خان کے حامیوں میں غصہ ہے، جو پھر اسے اسٹیبلشمنٹ پر نکالنے کی کوشش کریں گے۔ عمران خان دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہیں کئی قانونی مقدمات کا سامنا کرنے کے باوجود انہیں آئندہ انتخابات کیلئے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے اور ممکنہ طور پر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جا سکتا ہے۔ اب سوالات اٹھیں گے کہ کیا موجودہ حالات میں آرمی چیف جنرل باجوہ کو 29 نومبر کوعہدہ چھوڑنے کی اجازت دی جانی چاہیے جب ملک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ اگر جنرل باجوہ اب آرمی چیف کے عہدے پر برقرار رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کے اگلے چیئرمین جائینٹ چیف آف اسٹاف بننے کے امکانات ہیں عاصم منیر اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے جب عمران وزیر اعظم تھے، اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی رپورٹس نے عمران کو ناراض کیا تھا، اس لیے موجودہ حکومت ان پر بھی غور کر سکتی ہے۔ پاکستانی فوج ایسی صورتحال نہیں چاہے گی جہاں اسے بڑی تعداد میں لوگوں سے طاقت کے ساتھ نمٹنا پڑے۔ لہٰذا اگر احتجاج بڑھتا ہے، تو فوج حکومت کوعمران خان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا کہہ سکتی ہے۔جس سے پاکستان آنے والے دنوں میں مزید انتشار دیکھ سکتا ہے۔ معاملات سنبھالے نہ گئے تو ایک نیا قومی بحران جنم لے سکتا ہے، لہٰذا مزید ابتری سے ملک کو بچانے کی خاطر تمام ضروری آئینی اور قانونی اقدامات بلاتاخیر عمل میں لائے جانے چاہئیں۔ ان حالات میں پاک فوج بجاطور پر انتہائی پیشہ ور اور نظم و ضبط کی حامل ہونے پر فخر کرتی ہے، جس کا مضبوط ، انتہائی مؤثر اندرونی احتسابی نظام موجود ہے جو ہر وردی پہننے والے پر لاگو ہوتا ہے لیکن اگر ادارے کے جوانوں اور افسران کی عزت، سلامتی اور وقار کو بدنیتی سے بلاثبوت الزام تراشیوں سے نشانہ بنایا جائے گا تو یقینا ادارہ اپنے افسران اور جوانوں کی عزت کی ہر قیمت پر تحفظ کے لیے حق بجانب ہے۔