کل کے یوم ِ اقبال کے تقاضے


کل 9۔ نومبر کو ہم آل انڈیا مسلم لیگ کے قائد، مصورِ پاکستان اور شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا 145واں یوم ولادت منا رہے ہیں تو جہاں میرا تاسف یومِ اقبال کی سرکاری تعطیل منسوخ کئے جانے پر ہے وہیں مجھے 1947ء کے اسی ماہ کے دوران آزاد و خودمختار ریاست جوناگڑھ پر مارے گئے بھارتی شب خون پر بھی یہ دن گہنایا ہوا نظر آنے لگا ہے۔ ہمیں تو بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کی تعظیم و تکریم میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے مگر ہم تو اپنی ساری قدریں اور اپنے آباء کی ہر نشانی ملیامیٹ کرنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ یہ علامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے اپنے 1930ء کے خطبۂ الٰہ آباد میں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ مملکت کا تصور دیا تھا جسکی بنیاد پر انہیں مصورِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے اور یہ علامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کئے محمدعلی جناح کو ملک واپس آکر برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کرنے کیلئے قائل کیا۔ اگر قائداعظم ہندوستان واپس نہ آتے تو کون جانتا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی راج سے آزادی کے وقت اس کا نقشہ کیا ہوتا اور 23۔ مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کی بنیاد پر آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر شروع ہونیوالی تحریک پاکستان شروع بھی ہو پاتی یا نہیں۔ اس حوالے سے تو اقبال بانیانِ پاکستان میں بھی بلند رتبے پر فائز ہیں جس کا اعتراف خود قائداعظم نے بھی انکی رحلت کے بعد تحریک پاکستان کے مقاصد اور بنیادی نکات اجاگر کرتے ہوئے کیا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی الگ مملکت کیلئے وہ اقبال کے متعینہ بنیادی نکات پر ہی کاربند رہیں گے۔ وہ قائداعظم کے ہاتھوں اپنی خواہش کے مطابق برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ مملکت خداداد تشکیل پاتے تو نہ دیکھ سکے مگر اس مملکت کا وجود اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد میں وضع کئے گئے الگ مملکت کے تصور اور زریں اصولوں کی بنیاد پر ہی عمل میں آیا۔ 
بے شک اسی تناظر میں یومِ اقبال قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور سرکاری و نجی سطح پر منعقد ہونیوالی یومِ اقبال کی تقاریب میں پاکستان کی بنیادیں مستحکم کرنے کا بھی ساتھ ہی ساتھ سوچا جاتا ہے۔ ہم ہر الّم غلّم موقع پر تو تعطیلات منا لیتے ہیں مگر اقبال جیسے قومی مشاہیر کے یومِ ولادت و وفات پر سرکاری تعطیل کرنا ہمیں سوٹ نہیں کرتا۔ اب تو سرکاری سطح پر یوم اقبال کی کسی بڑی تقریب کے انعقاد کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ قومی زبان تحریک کی سرگرم قائد فاطمہ قمر نے تو یوم اقبال کی منسوخ شدہ تعطیل کی بحالی کیلئے باقاعدہ مہم شروع کر رکھی ہے جن کے بقول حکومتی سطح پر یہ اقدام محض تعطیل کی منسوخی نہیں بلکہ تعلیماتِ اقبال سے نوجوان نسل کو دور کرنے کی بھی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کو ان کا سات نومبر 2015ء کا ایک بیان بھی یاد دلایا تھا جس میں انہوں نے اقتدار میں آکر یوم اقبال کی تعطیل بحال کرنے کا اعلان کیا تھا مگر جناب! اہل اقتدار کی ترجیحات ہی کچھ اور ہوتی ہیں۔ عمران خان صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد یوم اقبال کی سرکاری تعطیل بحال کرنے کا وعدہ تو کیا نبھانا تھا مگر 9۔ نومبر 2019ء کو یوم اقبال ہی کے روز انہوں نے کرتارپور راہداری کا افتتاح کرنا ضروری سمجھا۔ وہ اپنے اس وعدے کو فراموش کرتے کرتے بالآخر اقتدار کی راہداریوں سے ہی باہر نکل آئے اور اب اقبال جیسے قومی مشاہیر انکی اتھل پتھل سیاست میں کہیں جگہ پا ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ تو اب ان مشاہیر کی جانب سے برصغیر کے مسلمانوں کو دلائی گئی آزادی کو بے معنی سمجھ کر ’’حقیقی آزادی‘‘ کی جدوجہد میں مصروف ہو چکے ہیں۔ انکے عہد میں 9۔ نومبر 2019ء کا یوم اقبال کرتارپور راہداری کے افتتاح کی نذر ہوا اور وزیراعظم صاحب نے یوم اقبال کی کسی سرکاری تقریب میں شمولیت کے بجائے راہداری کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کی سعادت حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ اسکے بعد بھی یوم اقبال کی کسی تقریب کا سرکاری سطح پر تزک و احتشام کے ساتھ اہتمام ہوتا نظر نہ آیا اور اب موجودہ مخلوط حکومت بھی یومِ اقبال کی سرکاری تعطیل بحال کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی تو ہم اپنے رویوں‘ طرز عمل اور چال چلن سے اپنے قومی مشاہیر کے حوالے سے دنیا کو اور اپنی نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ 
بے شک بانیان پاکستان اور قومی مشاہیر کے جوش و جذبے کے ساتھ دن منانا اور ان کی عزت و توقیر پر کوئی حرف نہ آنے دینا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر صدر مملکت اور وزیر اعظم سے لے کر ارکان پارلیمنٹ تک اپنے مناصب کا حلف اٹھاتے ہوئے قیام پاکستان کا باعث بننے والے اسلامی نظریہ کی مکمل پاسداری کا عہد کرتے ہیں تو اس نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کی الگ مملکت کا تصور پیش کرنے والے اسلامیان ہند کے قائد علامہ اقبال کی عزت و توقیر میں کوئی حرف نہ آنے دینا بھی اربابِ اقتدار سمیت ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ یوم اقبال منا کر درحقیقت اسی عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ان کے قومی لیڈر والے تشخص میں کوئی کمی نہیں آنے دی جائیگی۔ کیا ہمیں اپنے قومی مشاہیر کے ایام کو نظرانداز کر کے دوسروں کے دینی پیشوائوں کے پیروکاروں کی عزت افزائی کرنی چاہئے؟ اگر اس پر ہمارا ضمیر مطمئن ہو جائے تو بھلے اپنے ایجنڈے پر کاربند رہیئے مگر تحریک پاکستان اور تشکیل پاکستان کے مراحل میں اس ارض وطن کے لیے ہجرت کرنے اور اپنی جانوں اور عصمتوں کی قربانیاں دینے والے مسلم خاندانوں کے ذہنوں میں موجود تلخیاں کچوکے مار کر جگانے کا اہتمام کرنے سے بہرصورت گریزکیجئے۔ آپ نومبر کا پورا مہینہ تحریک الحاق جوناگڑھ کے طور پر منا سکتے ہیں اور اسے تاریخ پاکستان کے زریں ابواب کا حصہ بنا سکتے ہیں۔
 تقسیم ہند کے وقت خودمختار ریاست جوناگڑھ کے نواب نے بھی کشمیری عوام کی طرح پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا اور نواب آف جوناگڑھ کے اس اعلان کے بعد 13 ستمبر 1947ء کو پاکستان نے جوناگڑھ کا الحاق قبول بھی کرلیا تھا مگر بھارت کی ہندو لیڈر شپ نے کشمیر کی طرح جوناگڑھ کا بھی پاکستان کے ساتھ الحاق ناممکن بنا دیا اور وہاں کے ہندو شہریوں کو اکسا کر الحاق مخالف پرتشدد تحریک کے راستے پر لگا دیا جس کو جواز بنا کر بھارت نے یکم نومبر 1947ء کو کشمیرہی کی طرح اپنی فوجیں جوناگڑھ میں بھی داخل کرکے اس پر اپنا تسلط جمالیا اور پھر 20 فروری 1948ء کو ریفرنڈم کے ذریعے ہندو اکثریتی آبادی کا بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ لے کر اسے بھارتی ریاست گجرات میں ضم کر دیا۔ یہ پاکستان سے الحاق کیلئے تڑپنے والے کشمیری مسلمانوں کی طرح جوناگڑھ کے مسلمانوں کیلئے بھی ہندو کے مظالم کی تلخ تاریخ ہے اس لئے ہمیں تحریک آزادیٔ کشمیر کا دامے‘ درمے‘ سخنے ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ ماہ نومبر کو جوناگڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی سرکاری سطح پر مضبوط آواز بلند کرنے کیلئے بھی مختص کرنا چاہیے۔ اس طرح یوم اقبال اور تحریک الحاق جوناگڑھ کے ذریعے ہم کشمیر پربھی اپنا کیس مزید مضبوط بنا سکتے ہیں۔ اس کیلئے ہم مصلحتوں کے لبادے سے باہر نکلیں گے تو بات بنے گی۔ مسلم لیگ (ن) اس وقت موجودہ حکومتی اتحادیوں میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور میاں شہبازشریف کی قیادت میں آج عملاً اسی پارٹی کی حکومت ہے جو پاکستان کی خالق جماعت ہے۔ اگر اس پارٹی کی حکومت کے دوران بھی بانیان و اکابرین پاکستان کی عزت و حرمت کی پاسداری نہیں کی جاتی تو پھر کسی اور سے کیا توقع باندھی جائے۔ وزیراعظم شہبازشریف کل یومِ اقبال کی سرکاری تعطیل بحال کرنے کا اعلان کرکے ملک و ملت کے ساتھ اپنی نظریاتی وابستگی کا ثبوت فراہم کر سکتے ہیں ورنہ:
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیا کسی سے گلہ کرے کوئی 

ای پیپر دی نیشن