جب کسی قسم کا کوئی سانحہ نما واقعہ رونما ہوتا ہے تو پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں کے آتش بیان لیڈر اور ان کے حامی آتش بار تجزیہ کار بیان بازی اور کاغذ بازی کا ایک طولانی یدھ شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً حالات نارمل ہونے کے بجائے مزید ابتر ہونے لگتے ہیں۔ طرح طرح کی قیاس آرائیوں اور بے سر و پا رائے زنیوں سے کام لے کر انتشار اور عدم استحکام کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وفاقی حکومت اور اس کی کابینہ کے دو تین وزراء نے سانحہ وزیر آباد کے بعد ’’بیانات کا ایک شریر آباد ‘‘بسانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مشتعل عوامی جذبات کو سرد کرنے کے بجائے ان کے ’چناجور گرم ‘ قسم کے بیانات نے انہیں مزید اشتعال اور غم و غصہ کی شاہراہ کا مسافر بنا دیا۔
واقعہ کی خبر عام ہوتے ہی چاروں صوبوں، گلگت بلتستان ، آزاد جموں و کشمیر اور وفاقی دارالحکومت میں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ ایسا ہونا یقینا ایک فطری امر تھا۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اپریل 2022ء کے بعد سے پاکستانی عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات ، اکتوبر میں ملک بھر میں منعقدہ انتخابات اور حالیہ دنوں میں کرم ایجنسی میں پی ٹی آئی کے امیدوار وں کی کامیابی نے ثابت کیا کہ ملک بھر میں ووٹرز کی ایک قابل ذکر تعداد پی ٹی آئی کے لیے اپنے ووٹ وقف کر چکی ہے۔ اسی تناظر میں عمران خان فی الفور عام انتخابات کا مطالبہ بلند آہنگ لہجے میں کر رہے ہیں۔ وہ اب تک ساڑھے چھ درجن سے زائد ایسے عوامی اجتماعات سے خطاب کر چکے ہیں، جن میں شرکاء کی تعداد لاکھوں سے کم نہیں تھی۔ یہ زبانی جمع خرچ نہیں ہے کیمرہ ان تمام اجتماعات کو عکس بند کر چکا ہے۔ یہ عمران خان کی عوامی مقبولیت کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ دریں چہ شک کہ عمران خان پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہلے لیڈر ہیں ، جن کے لانگ مارچ کے دوران ان پر فائرنگ کی گئی۔ ایک درجن سے زائد لوگ زخمی ہوئے ۔ عمران خان خود بھی زخمی ہوئے۔ وہ پہلے لیڈر ہیں کہ جنہوں نے تحریک کی آبیاری کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کا دفاع کرتے ہوئے پی ٹی آئی کا ایک کارکن معظم گوندل بھی شہید ہوا۔ جس تحریک میں قائد اور لیڈر کا خون شامل ہو جائے، وہ منزل مقصود پر پہنچ کر دم لیتی ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایوبی جرنیلی حکومت کے دور میں بھاٹی چوک لاہور میں سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے جلسہ پر بھی اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ خطاب کے لیے مائیک کے سامنے آئے تھے۔ فائرنگ کے نتیجہ میں جماعت اسلامی کا ایک کارکن اللہ بخش شہید ہو گیا لیکن فائرنگ کے باوجود سید مودودیؒ کھڑے رہے۔ ان کے ساتھیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ بیٹھ جائیں۔اس موقع پر سید مودودی نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا: ’اگر آج میں بیٹھ گیا تو پھر کون کھڑا ہو گا‘۔ تاریخ نے ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرایا۔ عمران خان کو گولیاں لگیں ، وہ لہو لہان تھے۔ انہیں شوکت خانم کینسر ہسپتال پہنچایا گیا۔ 24 گھنٹے میں ان کا آپریشن کر کے گولیاں نکال دی گئیں۔ اگلے ہی روز عمران خان نے وہیل چیئر پر اپنے کارکنوں اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ جاری رہے گا۔ انہوں نے ڈاکٹروں کی ہدایت کے برعکس بسترِ آرام پر لیٹے رہنے کے بجائے عوام کا ساتھ دینے کو ترجیح دی۔گویا انہوں نے بزبان حال یہ کہا کہ اگر آج میں بستر پر لیٹا رہا تو حقیقی آزادی کے متلاشی عوام کس طرح سڑکوں پر قافلہ در قافلہ رواں دواں رہیں گے۔ انہوں نے ببانگ دہل پیـغام دیا :
ہری ہے شاخ تمنا ابھی جلی تو نہیں
دبی ہے عشق کی آتش مگر بجھی تو نہیں
ادھر گولیوں کی سنسناہٹ اور کارتوسوں کی تڑ تڑاہٹ ہے اور ادھر یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیںکہ حکومت اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ 6 ماہ ہوتے ہیں کہ عام شہری آسودگی اور طمانیت ایسے بنیادی انسانی حقوق سے ناآشنا ہے۔
واضح رہے کہ نا آسودہ اور غیر مطمئن معاشروں ہی میں لاقانونیت، انتشار اور جرائم کو فروغ ملتا ہے۔ سستے داموں اشیائے خورو نوش کا حصول ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے… عام آدمی پوچھ رہا ہے کہ اگر ملک میں معاشی ترقی ہوئی ہے تو اس کے ثمرات و فواکہات اس تک کیوں نہیں پہنچے۔ اقتصادی ڈھانچے کی مجموعی بہتری اور عام آدمی کو ریلیف دینے کے حوالے سے پی ڈی ایم حکومت تادم تحریر متوازن اور فوری نتائج خیز اقدامات کرنے سے قاصر رہی ہے۔
اصولی طور پر اسے یہ اقدامات اپنے بلند بانگ دعوؤں اور خوشنما وعدوں کے تحت کر لینا چاہئیںتھے۔ یہ ایک تلخ زمینی حقیقت ہے کہ مضمحل معیشت کی بحالی کے ثمرات کے دعوے نمایاں عملی صورت میں سامنے نہیں آئے، صرف اسحاق ـڈار اور ان کے پیشرو مفتاح اسماعیل زبانی جمع خرچ کے لالی پاپ دے کر عوام کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی میں آسودگی اور معیشت میں استحکام اس ٹھوس انداز میں سامنے آنا چاہیے کہ اسے عام آدمی بھی تسلیم کرے۔ عام آدمی تو اس وقت بھی بیروزگاری اور مہنگائی کے بھاری بھرکم چکی کے پاٹوں میں دانۂ گندم کی طرح پس رہا ہے۔معاشی صورتحال تو چھ ماہ سے دگر گونی کے عارضے میں مبتلا ہے اور سیاسی صورتحال کسی جہت، کسی سمت ، کسی زاویے اور کسی عنوان سے خوش آئند نہیں۔ ایک درجن سے زائد سیاسی جماعتوں کی حکومت کنٹینروں میں گھرے اسلام آباد تک محدود ہے۔ صوبے اس کی رِٹ اور اتھارٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ حکومت مارگلہ پہاڑیوں کے زیر سایہ 27 کلو میٹر تک محدود ہے۔البتہ پی ڈی ایم کی اتحادی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اسلام آباد میں لڑکھڑاتی حکومت کو سہارادینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پولیس نفری کی بیساکھیاں فراہم کر رہی ہے۔
اس منظر نامے کو کسی صورت بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان جن نازک حالات سے گزر رہا ہے ، ان کا تقاضا ہے کہ میڈیا وسیع تر ملکی و قومی مفاد میں مبنی بر حب الوطنی کردار ادا کرے ۔ صورت حال انتہائی نازک دور میں داخل ہو چکی ہے۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو متوقع مذاکرات کے حوالے سے ہر خبر، تجزیے اور تبصرے کو شائع اور نشر کرنے سے قبل معاملے کی سنگینی کو پیش نظر رکھنا ہوگا، محض ریٹنگ بڑھانا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مدارالمہاموں کا مقصود نہیں ہونا چاہیے۔بدقسمتی سے سیاست کی طرح صحافت بھی دھڑے بندی کا شکار ہو چکی ہے۔ قومی صحافت کا امیج بری طرح سے مجروح ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت عیاں را چہ بیاں کے زمرے میں آتی ہے کہ پاکستان سیاستدانوں کا بھی ہے، ارباب حکومت ، اپوزیشن اور ریاستی اداروں کا بھی۔ سب سے بڑھ کر عام پاکستانیوں کا بھی اس پر اتنا ہی حق ہے۔