ایک اور”عرب بہار“ کے لیے پھڑپھڑاتا غزہ کا ہمسایہ

1990ءکی دہائی کا آغاز ہوتے ہی جب سوویت یونین پاش پاش ہوکر محض روس تک محدود ہوگیا تو ہمیں ”خوش خبری“ سنائی گئی کہ دنیا بھر میں ”نیا نظام“ یا نیو ورلڈ آرڈر آگیا ہے۔ نیا نظام انسانوں کو قومی یا نظریاتی ”تعصبات“ سے نجات دلاکر اپنی ذاتی زندگی پر توجہ مرکوز رکھنے کو ا±کسائے گا۔ دنیا بھر کے ممالک خود کو ایک وسیع تر اقتصادی نظام کا حصہ محسوس کریں گے۔ان کے درمیان موجود سرحدیں بے وقعت ہونے کے بعد بالآخر اپنا وجود ہی کھودیں گی۔ ذہین وفطین افراد اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پسماندہ ترین ممالک میں پیدا ہوکر بڑے ہونے کے باوجود دنیا کے اقتصادی اعتبار سے خوش حال ترین ممالک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے حیران کن تنخواہ اور مراعات پر بھی دستیاب نہیں ہوں گے۔ 
”نیو ورلڈ آڈر“ کی نمو نظر بظاہر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں کمیونزم کی حتمی شکست کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔سوویت یونین کے خاتمے نے اس سرد جنگ کو ختم کردیا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ”نظریاتی کیمپوں“ کے مابین کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ مبینہ ”سرد جنگ“ دنیا کے کئی ممالک میں اگرچہ ”گرم جنگ“ کی صورت بھی اختیار کرتی رہی۔ ویت نام کا محاذ سرد ہوا تو 1980ءکی دہائی سے افغانستان میں ”جہاد“ کا آغاز ہوگیا۔ مذکورہ جہاد ہی سوویت یونین کے زوال کا اصل سبب ثابت ہوا۔ ”نظریاتی تقسیم“ کے خاتمے نے ہم سادہ لوحوں کو امید دلائی کہ جنگیںاب ماضی کا حصہ بن جائیں گی۔ دنیا بھر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ پرامن اور خوشحال دکھتے کسی ”گاوں“ میں بسے زندگی سے مسلسل لطف ا ندوز ہوتے باسیوں کی طرح زندگی گزاریں گے۔
رواں صدی کا آغاز ہوتے ہی مگر نائن الیون ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں دنیا کی نام نہاد ”مہذب قوتیں“ فی الفور ”متحدہوکر نہایت وحشت سے افغانستان پر چڑھ دوڑیں۔ افغانستان کو ”جمہوریت کا نصابی نمونہ“ بنانے کے دوران ہی لیکن امریکہ کو اچانک یہ بھی یاد آگیا کہ عراق کے صدام حسین کے پاس ”ایٹمی ہتھیار“ہیں۔ انہیں ڈھونڈ کر تباہ کرنا ہوگا۔ تقریباََ ایک دہائی گویا نام نہایت مہذب دنیا نے عراق اور افغانستان کو غارت کرنے میں گزاردی۔ ان دو ممالک کے خلاف برپا ہوئی جنگوں نے ہمیں داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں ہی دی ہیں جو موجودہ نظام کو کاملاََ تباہ کرنے کو ڈٹی ہوئی ہیں۔ قصہ مختصر ”نیو ورلڈ آرڈر‘ ‘ دنیا کو ایک پرامن اور خوشحال گاﺅں بنانے میں قطعاََ ناکام رہا ہے۔
مذکورہ نظام کی ناکامی کا احساس مجھے منگل کی صبح اٹھ کر اپنا موبائل فون دیکھنے کی وجہ سے ہوا۔اسے کھولنے کے لئے بٹن دبایا تو 7نومبر 2023ءکی تاریخ پر نظرپڑی۔سات کا ہندسہ دیکھا توفوراََ خیال آیا کہ غزہ میں جاری وحشیانہ جنگ نے ایک مہینہ مکمل کرلیا ہے۔ گزرے 30دنوں میں لاکھوں انسانوں کے گھروں کی تباہی کی وجہ سے معصوم بچے اورخواتین بھی ہزاروں کی تعداد میں جاں بحق ہوئے۔اسرائیل مگر اب بھی جنگ بندی کو آمادہ نہیں ہے۔ کامل جنون کے ساتھ اس ضد پر ڈٹا ہوا ہے کہ فلسطینی غزہ کی پٹی خالی کردیں۔ اس پٹی میں نسلوں سے مقیم 23لاکھ فلسطینی اپنے آباﺅاجداد کی زمین چھوڑنے کو تیار نہیں۔وہاں بسا ہر فلسطینی حماس کا رکن نہیں ہے۔انہیں مگر اس تنظیم کی وجہ سے ”اجتماعی سزا“ کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ معاشرے کے کسی گروہ کو چند افراد کی وجہ سے ”اجتماعی سزا“ کا نشانہ بنانا سامراجی وحشت کی بدترین مثال تصور ہوتا تھا۔ بعدازاں فرض کرلیا گیا کہ ”تعلیم وتہذیب“ نے انسانوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ جنگوں کے دوران ”جنگجو“ قوتوں اور عام شہریوں کے مابین فرق کو ہمیشہ نگاہ میں رکھیں۔غزہ میں آباد ہر فلسطینی کو لیکن ”جنگجو“ ہی تصور کیا جاتا ہے۔جنگ کی ایک قسم Preventive Strikeبھی پکاری جاتی ہے۔یہ وہ حملہ ہے جو آپ دشمن کی جنگی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لئے پہل کار انداز میں کرتے ہیں۔کئی دکھی دل پریشان ہوئے یہ سوچنے کو مجبور ہیں کہ غزہ میں صہیونی قوتیں وہاں آباد بچوں کو مارتے ہوئے درحقیقت مستقبل کے مزاحمت کاروں کو Preventive Strikeکا نشانہ بنارہی ہیں۔
غزہ میں جو وحشت بربریت ایک ماہ سے مسلسل جاری ہے اسے روکنے کو نام نہا د ”عالمی ضمیر“ قطعاََ متحرک نہیں ہورہا۔ دوسروں کو دوش دینے سے قبل تاہم ہمیں ایمانداری سے یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری کے خلاف انسانوں کا سمندر دکھتے جلوسوں کا اہتمام بھی ان ہی ممالک کے بڑے شہروں میں ہوا جو ”مسلم“ نہیں کہلاتے۔ جن ممالک پر ”اسلامی“ ہونے کی تہمت ہے ان میں سے چند ہی کے ہاں جذبات سے بپھرے انسانوں کے سمندر دیکھنے کو ملے۔ ”اسلامی“ کہلاتے ممالک کی ریاستیں اپنے شہریوں کو غلام بنائی رعایا کی طرح سوچنے اور اظہار رائے کے حق اور مواقع سے جابرانہ دہشت کے ساتھ محروم رکھتی ہیں۔ اسی باعث ان کے بڑے شہروں میں آپ کو اسرائیل کی مذمت کرتے انسانوں کے سمندر دیکھنے کو نہیں ملتے۔
غزہ میں محصور ہوئے فلسطینیوں کی گزشتہ ایک ماہ سے مسلسل اجاگر ہوتی بے بسی مگر بتدریج”اسلامی“ کہلاتے ممالک کی ریاستوں کی ”اکڑفوں“ بھی بے نقاب کریں گی۔ اس ضمن میں فی الوقت غزہ کا ہمسایہ مصر ایک اور ”عرب بہار“ کے لئے پھڑپھڑاتا محسوس ہورہا ہے۔اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے لئے اب بھی وقت ہے کہ کسی نہ کسی نوعیت کی جنگ بندی پر آمادہ ہوجائیں۔ وہ اس کے لئے رضا مند نہ ہوئے تو مشرق وسطیٰ کا تقریباََ ہر ملک ویسے ہی انتشار کی لپیٹ میں آسکتا ہے جو 1990ءکی دہائی کا آغاز ہوتے ہی سوویت یونین اور اس سے وابستہ ”کیمپ“ کا مقدر ہوا تھا۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن