فیصل سلیم
chfaysul@gmail.com
پاکستان بھر میں مین ہول میں گر کر جاں بحق ہونے کے واقعات عمومی صورتحال کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ علاقہ شہری ہو یا دیہی، سیوریج لائن کے اکثر و بیشتر مین ہولز پر ڈھکن موجود نہیں ہوتے ہیں۔ جس کے باعث انسانی جان کے ضیاع کے واقعات روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق پنجاب بھر میں رواں سال میں پانی میں ڈوبنے والی 1173 ایمرجنسیز ہوئی ہیں جن میں سے 842 اموات واقع ہوئی ہیں۔ ان ایمرجنسیز میں جاں بحق ہونے والے افراد میں سے بیشتر کی اموات نہروں یا دریاو¿ں میں پانی میں ڈوب کر اور کنویں کی تعمیراتی کام کے دوران ہوئی ہیں۔ ریسکیو 1122 پنجاب کے افسر برائے تعلقات عامہ محمد فاروق کے مطابق دوران رپورٹنگ ایمرجینسیز کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔ اس ایمرجنسی کی نوعیت کو رپورٹ نہیں کیا جاتا اس لئے مین ہول میں گر کر جاں بحق ہونے والے افراد کی حتمی تعداد واضح کرنا ممکن نہیں ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر مذکورہ تعداد میں سے پانچ فیصد اموات بھی مین ہول میں گر کر جاں بحق ہونے والوں کی تصور کی جائے تو پنجاب بھر میں کم از کم 42 افراد مین ہولز میں گر کر جاں بحق ہوچکے ہیں ۔مین ہولز کے ڈھکنوں کی چوری کا تدارک غیر روایتی انداز سے بنائے جانے والے فائبر یا کیکر کے ڈھکنوں سے کیا جاسکتا ہے جو قیمت میں بھی روایتی ڈھکن سے سستے اور پائیدار ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ 6 اگست 2023 بروز اتوار کو خانیوال شہر کی میونسپل کمیٹی کی حدود میں واقع علاقہ کھوکھرآباد میں شام چار بجے پیش آیا۔ کھوکھرآباد کے رہائشی 8 سالہ معاذ سعید (متوفی) کے داداعبدالحمید نے بتایا کہ انکا پوتا معاذ سعید اپنے کزن اور دوستوں کے ہمراہ گھر سے کچھ دور ایک میدان میں کرکٹ کھیل رہا تھا۔ کھیلنے کے دوران گیند اٹھانے کی غرض سے اسے سڑک کے پار موجود ایک ویران پٹرول پمپ پر جانا پڑا۔ واپس مڑتے وقت وہاں پر موجود گھاس سے ڈھکے 35 فٹ گہرے مین ہول میں وہ اچانک گرگیا جس کے اوپر ڈھکن نہیں تھا جو کہ تاحال باآسانی دکھائی نہیں دیتا۔ انہیں محلے والوں نے اطلاع دی کہ معاذ مین ہول میں گرگیا ہے۔
وہ موقعے پر پہنچے تو اہل محلہ نے ساڑھے چار بجے کال کر کے ریسکیو 1122 کو بلوا لیا تھا۔ جبکہ 20 منٹ بعد پہلے سے موجود دو موٹر سائیکلوں نے ایمبولینس کو بھی بلوالیا۔ تاہم ریسکیو کا عملہ حفاظتی کٹ کے بغیر مین ہول کے اندر نہیں اتر سکتا۔ ریسکیو 1122 نے میونسپل کمیٹی سے متعلقہ عملہ بھجوانے کا کہا، اس ساری سرگرمی میں ایک گھنٹہ صرف ہوا تب جاکر میونسپل کمیٹی سے عمران اور ججو نامی اہلکار آئے اور انہوں نے ریسکیو 1122 کی مدد سے معاذ کو بغیر سیفٹی کٹ کے ہی مین ہول سے نکالا۔ اور ہسپتال پہنچنے پر پتہ چلا کہ بچے کی موت ایک گھنٹہ قبل ہی واقع ہوگئی تھی۔
متوفی معاذ کے والد محمد سعید کمبوہ کا کہنا ہے کہ وہ فیصل آباد تھے اور گارمنٹس فیکٹری سے اپنے کام سے واپس لوٹے تھے، جب انہیں اس افسوناک واقعے کی اطلاع ملی۔ انہوں نے کسی بھی ادارے کے خلاف کاروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کھوکھرآباد بستی کے رہائشی و مقامی صحافی اللہ دتہ بھٹی کا کہنا ہے کہ یہ سیوریج لائن یونین کونسل نمبر 5 میں موجود کئی غیر رجسٹرڈ ٹاو¿نز کو مرکزی سیورج لائن سے جوڑتی ہے۔ شاہراہ پر آج بھی دو مین ہولز کھلے پڑے ہیں۔
مذکورہ واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے ضلعی انتظامیہ کو تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔ جس کے باعث ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریوینیو) کی درخواست پر مذکورہ چیف افسر کے خلاف ایف آئی آر درج ہوگئی۔ ابتدائی تفتیش میں وہ گنہگار قرار دئے گئے گئے، قاسم شکیل اپنی بیگناہی ثابت کرنے یہ کیس ہائی کورٹ میں لے گئے جہاں سے بعد ازاں انکی ضمانت قبل از گرفتاری 24 اکتوبر 2023 کو منظور ہوگئی۔ جبکہ اس حوالے سے از سر نوتفتیش کا کہا گیا ۔ سیکرٹری پنجاب ایل جی اینڈ سی ڈی ڈاکٹر ارشاد احمد کی ہدایات پر سردار نسیم احمد ڈائریکٹر جنرل انسپکشن و مانیٹرنگ کو اس واقعے کی تحقیقات سونپی گئیں۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق محمد نذیر (سپروائزر یونین کونسل نمبر 5) کو اس یونین کونسل سے کبھی بھی کسی کھلے مین ہول کے حوالے سے شکایت موصول نہیں ہوئی۔
جبکہ 23 اکتوبر 2023 کو میری ذاتی مشاہدے کے مطابق کھوکھرآباد چوک سے ڈیسنٹ ٹاو¿ن جہانیاں روڈ کے پانچ کلومیٹر کے علاقے میں بائی پاس کے اطراف میں موجود میگا سیوریج سکیم کے بظاہر نظر آنے والے تیس مین ہولز میں سے صرف تین مین ہولز (جائے وقوعہ اور کھوکھر آباد چوک اور عثمان معظم روڈ کے سامنے موجود مین ہول) کے علاوہ کسی بھی مین ہول پر باقاعدہ ڈھکن موجود نہیں ۔ ان سبھی مین ہولز کو مقامی رہائشیوں کی جانب سے اپنے تئیں کنکریٹ کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑوں کی مدد سے ڈھانپا گیا ہے، جبکہ کھوکھرآباد والے دونوں مین ہول کوور اس سانحہ کے فوری بعد رکھے گئے ہیں۔ اس دعوے کو عابد حسین (سینٹری انسپکٹر) کے بیان سے بھی تقویت ملتی ہے جنہوں نے 17 جولائی 2023 کو تمام سپروائزر سے کھلے مین ہولز کی رپورٹ طلب کی اور انکے مطابق 31 مین ہولز کے ڈھکن غائب تھے جس کی اطلاع انہوں نے سینئر افسران کو دے دی تھی۔
اگر 31 مین ہولز کا پانچ لاکھ کا تخمینہ لگا کر میونسپل افسر انفراسٹرکچر و سینیٹیشن کو رپورٹ کر دیا جاتا ہے تو سانحے کے بعد 11 اگست 2023 کو ہونے والے سروے میں یہی تعداد بڑھ 175 ہوگئی تھی جس کا تخمینہ 20 لاکھ روپے بن جاتا ہے۔ اس صورت حال میں عملدرآمد تو دور کی بات کوئی افسر فور ی کارروائی بھی نہیں کر سکتا۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ 28 نومبر 2023 کو اس واقعے میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے محمد زین کو چیف افسر میونسپل کمیٹی تعینات کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ واقعے کا علم ہوتے ہی جان محمد جاوید ٹرسٹ کے بانی میاں جاوید (مرحوم) معاذ کے ورثاء سے ملے۔ انہوں نے سوشل میڈیا کی مہم، سماجی کارکنان اور عام شہریوں کی نشاندہی پر شہر کے مختلف علاقوں (اعوان چوک سے اصطبل چوک، طارق آباد، مین گلبرگ ٹاو¿ن اور خرم پورہ) میں 175 مین ہولز پر ڈھکنوں کی تنصیب کروا دی ہے مگر حکومت کی املاک سیور لائن پر ذمہ داری بھی حکومت ہی کو ادا کرنی ہے۔
کا کہنا ہے کہ چیف سیکرٹری کا یہ خوش آئند اقدام ہے کہ مین ہول میں گر کر جاں بحق ہونے والوں کی ایف آئی آر میونسپل آفیسر کے خلاف کروائی جائے، تاکہ سرکاری افسران کو احتساب کی فکر لاحق ہو۔ سماجی کارکن زرمینہ لاشاری اور یوتھ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی سربراہ زرتاشہ کرن کا مو¿قف ہے کہ میونسپل کمیٹی میں مین ہولز کی ہمہ وقت نگرانی کا میکانزم موجود نہیں ہے۔ عوامی سطح پر ہر علاقے میں موجود مین ہولز کو محفوظ بنانے کے لئے شہریوں کی جانب سے ادارے کو بروقت آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
کھلے مین ھولز: موت کا کنواں
Nov 08, 2023