ملک میں رائج کثیر الجماعتی نظام میں سیاسی استحکام کا تقاضا

Nov 08, 2023

فرحان اسلم 
ranafarhan.reporter@gmail.com
ہمارے ہاںکثیر الجماعتی سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے یہ جماعتیںاقتدار بھی حاصل کرتی ہیں اور بعدازاں اندرونی اختلافات یا ملکی معروضی حالات کی وجہ سے کئی دھڑوں میں تقسیم بھی ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور انکا خاتمہ دونوں عوامل ساتھ ساتھ کارفرما ہیں۔آئین کے تحت وفاقی حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کی سرگرمیوں کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی بھی عائد کرسکتی ہے ۔اس کےلئے قانونی طریقہ کار کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجی گئی سمری کی منظوری وفاقی کابینہ کو دینا ہوتی ہے، اس منظوری کے بعد وزارت داخلہ پارٹی پر پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کر سکتی ہے۔ اس طریقہ ءکار کے تحت الیکشن کمیشن پارٹی کو ڈی لسٹ کرکے اس کی رجسٹریشن ختم کر دے توپابندی کی زد میں آنے والی جماعت کی اگر کسی بھی اسمبلی میں نمائندگی ہوگی تو ان ارکان کی رکنیت بھی ختم ہو جا تی ہے۔تاہم پارٹی پر پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے سے پہلے اگرکوئی رکن یاارکان سپیکر کو تحریری طور پر اپنی پارٹی سے وابستگی ختم کرکے آزاد حیثیت میں رہنے کے بارے میں آگاہ کر دیں تو ان کی رکنیت ختم نہیں ہوتی۔ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگنے کی صورت میںاسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے سپریم کورٹ بھی اگر وفاقی حکومت کے فیصلے کو درست قرار دے دے تو وہ پارٹی ختم ہو جاتی ہے پارٹی ختم ہونے کا مطلب ہے کہ حکومت اس کے دفاتر سیل اور اثاثہ جات قبضے میں لے کر بینک اکانٹس منجمند کر دیتی ہے وہ جماعت انتخابات میں حصہ لینے کی اہل بھی نہیں رہتی۔
ماضی قریب میں تو ایسی کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد نہیں ہوئی جس کی کسی اسمبلی میں نمائندگی موجود ہو تاہم 1975میں نیشنل عوامی پارٹی پر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کے وقت ولی خان اور دیگر کی اسمبلی رکنیت ختم نہیں ہوئی تھی پاکستان میں نام بدل کر کام کرنے پر پابندی کے حوالے سے بھی کوئی قانون موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ایک دو ڈمی ناموں کی رجسٹریشن کروا رکھی ہوتی ہے کہ پابندی کی صورت میں وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا آغاز 1954میں ہوا جب اس وقت کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی گئی ۔ کمیونسٹ پارٹی بعد میں مختلف ناموں سے وجود میں آتی رہی لیکن 2013میں ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں اس نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹر ہوئی ایوب خان کے دور میں کسی ایک سیاسی جماعت پر پابندی تو عائد نہیں ہوئی تاہم اس وقت ملک میں تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو کام سے روک دیا گیا تھا یہ پابندی بعد ازاں اٹھا لی گئی تھی پاکستان میں پابندی کا شکار ہونے والی دوسری جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی جس پر پہلے 1971میں یحییٰ خان نے جبکہ 1975میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پابندی عائد کی تھی آج کل عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے کام کر رہی ہے۔
سال 2001سے2015کے درمیان پاکستان نے ساٹھ سے زائد مذہبی سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور ان جماعتوں کے تحت کام کرنے والی فلاحی تنظیموں اور اداروں پر پابندی عائد کی ان جماعتوں میں سپاہ صحابہ پاکستان، لشکری جھنگوی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، سپاہ محمد، تحریک اسلامی، لشکر طیبہ، جیش محمد اور دیگر شامل ہیں۔2015میں ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائیوں کا آغاز ہوا تو ایسی کئی جماعتوں اور تنظیموں کے اثاثہ جات کو قبضے میں لے کر ان کے بینک اکانٹس بھی منجمد کر دیے گئے تھے ماضی میں جن سیاسی جماعتوں یا تنظیموں پر پابندی لگی وہ دوبارہ اس نام سے کام نہ کر سکیں ان سیاسی جماعتوں نے نام تبدیل کرکے نئی ناموں سے رجسٹریشن لی اور کام شروع کیا جیسے ایم کیو ایم لندن کے بعد ایم کیو ایم پاکستان بنی اورکچھ قائدین نے علیحدگی کے بعد پاک سرزمین پارٹی بنالی اسی طرح پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنیوالے متعدد قائدین نئی بننے والی جماعت استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں ماضی میں پاکستان مسلم ن کے بعد پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرینزکے طور پر بھی کام کیا۔
2018کے انتخابات سے پہلے الدعو والارشاد سے منسلک ملی مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت تشکیل دی گئی تاہم امریکہ کی جانب سے اس تنظیم پر پابندی کے باعث اس کو رجسٹریشن ہی نہیں دی گئی بعد ازاں اس جماعت کے امیدواروں نے''اللہ اکبر تحریک''کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تحریک لبیک پاکستان نے 2018میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا تھا اور پنجاب کے ہر دوسرے حلقے میں ان کے امیدوار تیسری پوزیشن پر موجود تھے جبکہ سندھ اسمبلی کی دو نشستوں پر تحریک لبیک کو کامیابی بھی ملی تھی اس جماعت پر بھی پابندی کی باتیں زبان زد عام رہیں اور آجکل پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے بھی ایسی باتیں کی جا رہی ہیں۔
ترجمان الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نوائے وقت کو بتایا ہے کہ اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک سو اکہتر (171)سیاسی جماعتیں رجسٹرڈہیں جو کہ پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوئیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائیٹ پر بھی انکی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ملک میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور خاتمے کے حوالے سے سیاسی وآئینی امور پر کام کرنیوالی تنظیم کے سابق نمائندے اور سوشل ایکٹیوسٹ سرور باری نے کہا ہے پاکستان میں سیاسی استحکام نہ ہونا پاکستانی کی ترقی نہ ہونے کی بڑی وجہ ہے ہر دور میں سیاسی نرسری کے گملے میں نئی قلمیں لگائی جاتیں ہیں جسکی وجہ سے ترقی کا عمل رک جاتا ہے ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں سیاست میں جب تک مداخلت رہی وہاں بھی سیاسی عدم استحکام رہا آج وہاں سیاسی جمہوری حکومت پرفارم کر رہی ہے جسکی وجہ سے ترکی جی 20میں شامل ہو رہا ہے بنگلا دیش سیاسی استحکام سے آج ہم سے آگے نکل چکا ہے پاکستان میں ہر دور میں سیاسی جماعتوں کو توڑ کر نئے دھڑے بنانے کا رواج رہا ہے جس سے ملکی ترقی اور سیاسی نظام کو ہمیشہ نقصان ہوا ہے جن سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگیں۔ وہ کسی دوسرے نام اور مفاہمت کے نظریے کیساتھ دوبارہ سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہو گئیں یہ سلسلہ ختم ہوگا توملک میں سیاسی استحکام آئیگا جس سے ترقی ممکن ہو گی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کے ترجمان حافظ حمداللہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں آزاد اور خودمختار نہیں ہیں بالخصوص ہر دور میں اقتدار کا حصہ ہونیوالی جماعتوں کو اقتدار کے بعد اسکی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے ملک کی سیاسی تاریخ کو بہتر کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو آزادنہ ماحول کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔
مسلم لیگ ن کی سابق رکن قومی اسمبلی شکیلہ لقمان چودھری نے کہا ہے کہ ملکی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں نے عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کام کیا لیکن بدقسمتی سے ملک وقوم کی خدمت کی سزا بھی سیاستدانوں کو ہی دی جاتی ہے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کی مثال سب کے سامنے ہے سیاسی جماعتوں کو اگر آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے تو ملک وقوم کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف)کے رہنما معروف قانون دان اورسینیٹر کامران مرتضی نے کہا ہے کہ پاکستان کا آئین جو حقوق ایک عام آدمی کو تفویض کرتا ہے اسکی دستیابی ہر صورت ہونی چاہیے ملک وقوم کے مستقبل اور مقدر کافیصلہ سیاسی جماعتوں کا حق ہے اور انہیں ہی کرنا چاہیے
 پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی جمہوریت اور شخصی آزادی پر یقین رکھتی ہے ملک میں سیاسی جماعتوں کی آزادی ایک اہم مسئلہ ہے اور ہماری جماعت کی جدوجہد آئین و قانون اور جمہوریت کے فروغ کیلئے رہی ہے اور اس کیلئے پاکستان پیپلزپارٹی نے قربانیوں کی طویل داستان رقم کی ہے جسکی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ملک میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور تحلیل کے حوالے سے سیاستدانوں کے خیالات ایک جیسے ہیں لیکن عملی طور پر ہر دور میں سیاستدان ہی مصلحت کا شکار رہے ہیں سینئیر سٹیزن اور کئی انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنیوالے عتت حسین نے کہا ہے پاکستان کے انتخابی نظام کی ازسر نو تشکیل کی ضرورت ہے پچھتہر سالوں سے انتخابات ایک ڈھونگ بنے ہوئے ہیں عام آدمی کا ووٹ اسکے انتخاب کیلئے موزوں طریقہ نہیں ہے فیصلے ووٹ کی بجائے کسی اور طریقے کار سے ہو رہے ہیں ۔
پاکستان کے معروضی حالات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مشکل وقت میں عملی سیاست کیلئے ایک جماعت سے دوسری جماعت کا جنم لینا بھی ایک المیہ رہا ہے اور آج بھی بدستور ایساہی ہورہا ہے سیاسی جماعتوںکو قومی سیاست میں اپنے کردارکو آزادانہ اور مو¿ثر بنانے کیلئے مربوط قانون سازی کیساتھ ساتھ قومی اتفاق رائے بھی پیداکرنا ہوگا ورنہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا عفریت ایسے ہی غالب رہیگا۔

مزیدخبریں